لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) امریکا نے جان لیا کہ اہم ایشوز پر پاکستان کی منتخب اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے امریکی صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے حوالے سے ایک بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ، اعتماد کی بحالی، برف پگھلی اور امریکا نے جان لیا کہ اہم ایشوز پر پاکستان کی منتخب اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا پڑے گا کہ پاکستان کے حوالے سے خود امریکا کی بھی ایک تاریخ ہے اور امریکا پاکستان کو ہمیشہ اپنے مفادات کے تابع دیکھتا اور معاملات چلاتا رہا ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کو جہاں کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے تو وہاں یہ بھی دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ کی پہچان پاکستان کے خلاف شدید تحفظات رکھنے والے صدر کی تھی جس نے افغانستان کے مسائل اور دیگر ایشوز پر پاکستان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا۔
آخر کیا وجوہات ہیں کہ اب وہ پاکستان اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان پر فریفتہ نظر آئے اور یہاں تک کہ کشمیر جو پاکستان کیلئے کور ایشو کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس پر بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کر دی جو براہ راست بھارت کو چھیڑنے کے مترادف تھی جو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے نہیں تھکتا۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ کا نچوڑ ان کی جانب سے ان کا یہ بیان ہے کہ امریکا سے امداد نہیں دوستی چاہتے ہیں اور دوستی کا یہ سلسلہ برابری کی سطح پر ہونا چاہئے۔
امداد سے نفرت ہے، بھکاری نہیں بننا چاہئے۔ ماضی کی حکومتیں غلامی کرتی رہی ہیں ان کا یہ بیان یقیناً پاکستان کے باشعور عوام کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے واپسی پر طالبان سے ملنے کی بات کی ہے اور لگتا یوں ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے طالبان کے بڑے کردار کے ساتھ انہیں کچھ شرائط اور خود اشرف غنی کیلئے کسی کردار پر مطمئن کرنا ہے اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو افغانستان میں امن قائم ہو سکے گا۔
ساتھ ساتھ امریکی صدرنے کشمیر پر ایک سوال پر یہ کہہ کر میری اس ضمن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بات ہوئی ہے اور میں اس پر ثالثی کیلئے تیار ہوں ایک بڑا اعلان کر ڈالا جس سے پاکستان اور کشمیر میں تو خوشی کی لہر دوڑی مگر بھارت میں اس پر کہرام مچ گیا۔
بھارتی میڈیا واویلا کرتا نظر آیا اور خود بھارتی وزیراعظم جو کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے ایسے لگا جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا۔ البتہ بھارتی خارجہ ترجمان نے اس پیشکش کو مسترد کر کے بھارت کی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا ثبوت پیش کر ڈالا۔ یقیناً امریکا اس پر خوش نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت بڑھے گی۔
امریکا نے ثابت کیا کہ اس کی صورتحال پر نظر ہے اور خود صدر ٹرمپ کی جانب سے اس پیشکش سے ان کی امریکا کے اندر، باہر مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں نے جہاں بھارت کو بے نقاب کیا وہاں امریکا اور مغرب کی خاموشی نے ان کی پوزیشن بھی خراب کر رکھی تھی۔
امریکی صدر کی براہ راست پیشکش پر بھارتی رد عمل خود امریکا اور بھارتی تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ امریکا علاقائی محاذ پر بھارت کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر قرار دیتا آیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے امریکی دورہ سے پاکستان کی معاشی صورتحال کا تعلق ہے تو فی الحال تو امریکا نے اس حوالے سے کوئی خاص اعلان نہیں کیا لیکن اسے اب موقع ضرور ملے گا کہ وہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو سمجھے۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ہونے والے نقصان کا احساس کرے اور خصوصاً دہشت گردی کے سدباب کیلئے پاک فوج کے اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات کو کولیشن سپورٹ فنڈز کے ذریعہ ادا کرے کیونکہ یہ اخراجات ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی دوستی کا اصل امتحان ایف اے ٹی ایف کے ذریعہ پاکستان پر پابندیوں کی لٹکتی تلوار کا مداوا کرے۔
تب کہا جا سکے گا کہ واقعتاً امریکا پاکستان کے حوالے سے اپنی دوستی میں مخلص ہے اور دوست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل میں کام آئے۔
چین نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا دوست تھا اور ہے اور اس نے پاکستان کی ترقی خصوصاً توانائی بحران سے خاتمہ کیلئے بڑی سرمایہ کاری کی اور آج ہم کسی حد تک توانائی بحران سے نکلے ہیں اور اگر امریکا پاکستان کے مسائل کا مداوا چاہتا ہے تو توانائی سیکٹر میں مددکر سکتا ہے لہٰذا پاکستان نے علاقائی محاذ خصوصاً افغانستان کے ایشو پر بہت کچھ کرکے دکھایا۔
لہٰذا اب گیند امریکا کے کورٹ میں ہے اور اسے کچھ کرنے کیلئے پاکستانی قیادت کے مطالبات کا انتظار نہیں کر نا چاہیے۔ تعلقات بہتر تبھی ہوں گے جب امریکا خود پاکستان کو د ئیے جانے والے امراض اور مشکلات کی دوا دے گا۔
پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی خوشی کیلئے بہت کچھ کیا بہت کچھ کر رہا ہے، مگر اصل سوال اب بھی یہی ہے کہ امریکا اس خطے کی سیاست میں بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کے ساتھ کس حد تک کھڑا ہے، اس کا عملی ثبوت اب بیانات سے نہیں اقدامات سے آنا چاہیے۔