کراچی: (دنیا نیوز) ایک اور سال بیت گیا، سندھ میں تعلیمی میدان میں کوئی تبدیلی نہ آسکی، درس گاہوں کی خستہ حالی، اساتذہ کی کمی اور سرکاری کالجز کے مایوس کن نتائج نے محکمہ تعلیم کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔
سندھ میں سال 2019 بھی شعبہ تعلیم میں بہتری لائے بغیر گزر گیا، تبدیلی کی ہوائیں تو چلیں لیکن سندھ کی درسگاہیں ان ہوائوں سے محروم رہیں، 2019 میں بھی خستہ حال درسگاہوں کی حالت بہتر ہوئی نہ اساتذہ کی کمی کو دور کیا گیا۔
درس گاہوں کی بہتری کے لیے فنڈز مختص ہونے کے باوجود سندھ کے اکثر تعلیمی ادارے آج بھی پانی، بجلی اور واش روم جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔ جس کے نتیجے میں سرکاری سکولوں میں طلباء کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔
سکولوں اور کالجز کے مایوس کن نتائج نے پڑھائی کے معیار کا پول کھول کر رکھ دیا، پری انجیرنگ، کامرس، پری میڈیکل سمیت کراچی کے انٹر امتحانات میں بھٹو خاندان سے منسوب کالجز کے نتائج صفر رہے۔
سال 2019 میں بھی کبھی مراعات تو کبھی مستقلی اور نوکری کی بحالی کے لیے سکول، کالجز کے اساتذہ، ہیڈ ماسٹرز اور غیر تدریسی عملہ سڑکوں پر احتجاج کرتے، پولیس کے ڈنڈے کھاتے اور گرفتاری دیتے نظر آئے۔
سال 2019 میں سندھ کا محکمہ تعلیم تدریس کے ساتھ ساتھ انتظامی ذمہ داریاں نبھانے میں بھی ناکام نظر آیا ہے، ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر پابندی کے باوجود اثر رسوخ اور جیب گرم کرنے جیسے اقدامات معمول رہے۔
6 ماہ تک بائیو میٹرک سسٹم کے غیر فعال ہونے سے سندھ بھر کے مختلف اضلاع سے آنے والے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔