بھارت میں مسلم دشمنی، راشن بھی مذہب پوچھ کر دیا جاتا ہے

Last Updated On 04 May,2020 09:01 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بھارت جیسا ملک جسے ایک وقت میں اپنے سکیولرازم اور بڑی جمہوریت ہونے کا زعم تھا آج وہ کرچی کرچی ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس لئے کہ ہندوتوا کے نظریہ کی حامل بی جے پی کی حکومت اور اس کے پردھان منتری بھارت کو ہندوستان بنانے اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی پر گامزن ہیں جس کے اثرات نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں انتشار کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں بلکہ انتشار اور خلفشار کی یہ صورتحال براہ راست ہندوستانی معیشت پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت کے انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ خیالات اور نظریات کے اثرات وہاں کے ریاستی اداروں پر بھی نظر آ رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نریندر مودی کے فاشزم کے ہاتھوں یرغمال بن گئے یا عملی طور پر اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال پر بھارتی افواج کے سربراہ وہاں اپنے تسلط کے قیام کیلئے ممکنہ اقدامات کے ساتھ اپنی حکومت کو یہ کہتے نظر آتے تھے کہ کشمیر خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے جس کا طاقت کے ذریعہ حل ممکن نہیں لیکن نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر پر کی جانے والی فوج کشی اور یہاں اپنے تسلط کے قیام کیلئے فوج کا بھرپور استعمال، ظلم، جبر اور بربریت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے ایجنڈا کے تحت کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے ہندوؤں کو لا کر بسایا جا رہا ہے اور کاروبار سمیت نوکریوں کا بڑا حصہ ان کیلئے مختص کیا جا رہا ہے اور اب جبکہ دنیا کورونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہے اور ان کی ترجیح اپنی سیاسی بقا اور معیشتوں کی بحالی ہے تو دوسری طرف بھارت کورونا کا شکار ہونے کے باوجود اس کورونا وائرس کو بھی مسلم دشمنی میں تبدیل کرتا نظر آ رہا ہے۔

یہاں کورونا بحران میں بھی مسلم دشمنی میں اور شدت نظر آ رہی ہے۔ سب سے بڑا الزام آج مسلمانوں پر یہ لگایا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کے رجحان کے ذمہ دار وہ ہیں اور مسلمان ہی یہاں کورونا وائرس لانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے قبل کبھی ہندوستان کے ہسپتالوں میں ایسی تفریق دیکھنے میں نہیں آئی تھی لیکن اب وہاں واضح طور پر ہندو اور مسلمانوں کے وارڈوں کی تقسیم نظر آ رہی ہے اور علاج کے حوالہ سے بھی ترجیح صرف ہندوؤں کو دی جا رہی ہے۔ کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے عمل کے باعث خوراک کی فراہمی کے عمل میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یکسر امتیازی سلوک جاری ہے اور مذہبی بنیاد پر تفریق کے پہلو کو نمایاں کر کے اسے امتیازی پالیسیوں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ راشن کی تقسیم کے دوران اب بتانا پڑ رہا ہے کہ آپ کا مذہب کون سا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو روک کر ان کے ساتھ گالم گلوچ کی جاتی ہے جو کھلی مسلم دشمنی کی عکاس ہے۔ نریندر مودی ہندوتوا کے فلسفہ کے تحت مسلمانوں کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں اور بلا جواز مسلمانوں کو نشانہ ستم بنانا ویسے ہی ہے جیسے جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔

اس حوالہ سے تو اب خود بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ مختلف اخبارات کے اندر شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے ہاتھوں بھارتی سکیولرازم اور جمہوریت ہی خطرے میں نہیں بلکہ ان کی پالیسیوں کے مضر اثرات یہاں کی معیشت پر بھی ظاہر ہوں گے جس کا ہندوستان متحمل نہیں ہو سکتا لیکن کیا نریندر مودی ابھی اس انتہا پسندانہ پالیسی پر پسپائی اختیار کریں گے یا ان کی حکومت اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے ہتھکنڈوں سے باز آئے گی۔ فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اس حوالہ سے گیند بین الاقوامی قوتوں کی کورٹ میں ہے جو ہندوستان کو اپنی منڈی قرار دیتے ہوئے نریندر مودی کے جرائم اور انتہا پسندی سے صرف نظر برت رہے ہیں۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ اگر آج کا بھارت انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھتا ہے تو پھر ان کی یہ منڈی اجڑ جائے گی۔ بھارت میں انارکی خود ان کیلئے نقصان دہ ہوگی لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ وہ نریندر مودی کی پالیسیوں کا نوٹس لیں تاکہ مودی اقلیتوں اور خصوصاً مسلم دشمنی سے باز رہیں کیونکہ یہی ان کے مفاد میں ہے اور اسی میں جنوبی اور عالمی امن کا راز مضمر ہے۔ بعض عالمی قوتوں اور بھارت میں بڑے سرمایہ کاروں کی آشیرباد پر برسراقتدار آنے والے نریندر مودی اب شائننگ انڈیا کے نعرے پر نہیں۔ ہندوستان صرف ہندوؤں کے نعرے پر کاربند ہے اور یہی بھارت کو غیر مستحکم کرنے، یہاں انتشار پیدا کرنے اور یہاں کی معیشت کو بے حال کرنے کا باعث بنے گا۔
 

Advertisement