لاہور: (تحریر : جاوید اقبال صدیقی) رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی دعا جو دوسرے عشرے کے اختتام تک روزہ داروں اور نمازیوں کے زبان زدِ عام ہے : ترجمہ:' میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں'۔
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا: حدیث نبویؐ
اسی لئے ! ہر مسلمان اپنے اپنے حصے کی نیکی اور رمضان میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے اور نیکیاں سمیٹنے میں، اور روزہ رکھنے میں مگن ہے کیونکہ حضرت محمد ﷺکا ارشادِ پاک ہے کہ:
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا۔ جس کو حق تعالیٰ شانہ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا۔
ایک اور جگہ حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:
’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو باب الریان کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے، اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑیں گے، ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا، جب روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:’’ جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا یعنی رات کو تراویح پڑھیں اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘بخاری و مسلم
رمضان المبارک کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اور مسلمان مرد و عورت، بچے بوڑھے ، جوان سب ہی عبادات میں مصروف ہیں۔
نماز میں آئمہ و خطباء نے روزے کی فضیلت و اہمیت کی فرضیت روشنی ڈالی۔ اپنے خطبات میں رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں غرباء و فقراء اور مساکین کی امداد کرنے پر کافی زور دیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو جو غرباء و فقراء کا رمضان شریف میں خیال کرتے ہیں انہیں روزہ افطار کراتے ہیں ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کو انواع اقسام کی نعمتیں میسر نہیں ہیں انہیں اپنے عیش و عشرت کے سامان میں شریک کر لیں اور ان کی غربت و افلاس کو اپنی بھوک و پیاس میں شامل کر لیں تو خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو اجرِ عظیم سے نوازتا ہے۔اس مہینہ کو صبر کا مہینہ کہا جاتا ہے اور صبر کا ثواب جنت بتایا گیا ہے۔ یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ روزہ عملی شکر کی بہترین مثال ہے۔ دن بھر بھوک و پیاس سے اللہ کی نعمتوں کا انسان خلوصِ دل سے اعتراف کرتا ہے اور اس کے دل میں شکرِ الٰہی بجا لانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ روزوں کے باعث باہمی اتفاق و اتحاد کا جذبہ بھی ہر طرف نظر آتا ہے۔ دوسرے عشرے میں جتنا زیادہ ہوسکے استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا خیال رکھاجائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوگا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہے اس لیئے اس مہینے میں جتنا ہو سکے غریبوں و مسکینوں اور یتیموں کی مدد کریں۔
رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ ہمارے سرو پر سایہ فگن ہے، بلا شبہ ماہِ رمضان کی فضیلتیں اور اس کی عظمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ رمضان شریف میں معمولی کارِ خیر میں ڈھیروں ثواب ملتے ہیں اس لئے امتِ مسلمہ کے اندر بھی نیکیوں کا جذبہ بے حد بڑھ جاتا ہے۔
جس مال کی زکوٰۃ نہیں نکالی جاتی ہے اس میں بے برکتی ہی ہوتی ہے اور دوسرے ذرائع سے مال کہیں نہ کہیں تلف اور برباد ہو جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے لوگ زکوٰۃکی رقم غیر مستحقین یا غیر مستحق اداروں میں دے دیتے ہیں اس طور پر ان کی زکوٰۃادا نہیں ہوتی۔ زکوٰۃو فطرہ کی رقم صرف انہیں کو دیں جن سے آپ بخوبی واقف ہوں۔ پڑوسیوں اور رشتہ داروں میں اگر کوئی مستحق زکوٰۃ ہے تو دوسروں پر اس کو ترجیح دیں، بعض لوگ حاجت مند ہوتے ہیں مگر زکوٰۃ و فطرہ لینے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں انہیں عیدی کہہ کر بھی زکوٰۃکی رقم دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نیکی کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیئے۔
مغفرت کا عشرہ
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں لیکن اللہ کی ان نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ حضوراکرمﷺکو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا اور اس کا شوق سے استقبال کرتے تھے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ یعنی عشرہ رحمت اختتام پذیر ہوچکا اور دوسرا عشرہ یعنی عشرہ مغفرت کا آغاز ہوچکا ہے۔
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے، وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ ا ورعبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کیا، یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔
روزہ ایسی عبادت ہے کہ نبی کریم ﷺکے ارشاد کے مطابق زندگی کے ان تمام مراحل میں کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے جو زندگی کے خصوصاً پہلے مرحلے میں اشد ضروری ہے۔دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جو زندگی کے دوسرے مرحلے کے لئے کار آمد ہے کہ اس کی وجہ سے قبر میں راحت ملے گی اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے جو زندگی کے تیسرے مرحلے میں کار آمد ہے۔
ماہ رمضان مغفرت کا وہ عظیم الشان مہینہ ہے کہ جو شخص اس کو پانے کے بعد بھی مغفرت سے محروم رہ گیا وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی۔
حدیث پاک ﷺمیں ارشاد ہے کہ
‘‘اے لوگو ! اتنی ہی عبادت کرو جو قابلِ برداشت ہو کیونکہ اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کے تم خود عبادت کرنے سے اْکتا جاؤ گے۔’’
بہت سی قومیں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ و استغفار کرنے کی وجہ سے ان پر سے عذاب ٹلا دیا۔
سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ! عذاب ان کے قریب آچکا تھا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی اور ساری قوم اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور اللہ تعالیٰ سے رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سے عذاب کو ہٹا دیا۔
حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے
’’رمضان کو اس لیے رمضان کہا جاتا ہے چونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے‘‘
توبہ واستغفار اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے۔ جس شخص کی توبہ قبول ہوگئی، اور رب نے اسے بخش دیا، وہ رمضان کے فضائل وبرکات سے محظوظ ہوگیا۔ رسول اللہﷺ لمحہ توبہ واستغفار کرتے تھے۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائناتؐ نے فرمایا۔
’’تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اِس میں دعا قبول ہوتی ہے اللہ تعالی اِس مہینہ میں تمھاری ر غبت کو دیکھتا ہے سو تم اللہ کو اس مہینہ میں نیک کام کرکے دکھاؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا‘‘۔
صادق الامین خاتم النبیین ﷺفرماتے ہیں۔
’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔( بخاری، حدیث ۱۹۰۱، مسلم، حدیث ۱۷۵۔)
اس ماہ مبارک کی آمد کا یہی وہ مبارک دن تھا جب تقریباً ’’پندرہ سو سال قبل مسجد نبویؐ کے منبر سے حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔
’’لوگو ! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آ رہا ہے وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے جس کے ایام بہترین ایام جس کی راتیں بہترین راتیں ہیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں ، (اس مہینہ میں ) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں تمہاری نیندیں عبادت ، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداکی ان برکات سے بہرہ مند نہ ہو سکے‘‘۔
روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روز ہ دار کے لیے شفاعت و سفارش کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓروایت کرتے ہیں کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا۔
’’روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے: ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ، ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لیے دین میں بہت سی آسانیاں فرمائی ہیں۔ ایسی ہی ایک نعمت ماہ رمضان کی صورت میں مسلمانوں کو عطا ہوئی جس میں خالق کائنات نے واضح کر دیا جو لوگ ماہ رمضان کے روزے احکام شریعت کے مطابق رکھیں اور تمام برائیوں سے بچے رہیں ان کے واسطے دنیا اورآخرت کی بھلائی اور بڑا اَجر ہے اور جنہیں اللہ کی ذات انعام واَجرسے نواز دے وہی پرہیزگار اور متقی لوگ ہیں۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔