اردو کے مباحث میں غلط العام کا چلن

Published On 24 May,2022 08:57 am

لاہور (امجد محمود چشتی) ایسے الفاظ اور فقرات جو اپنی اصل سے دھیرے دھیرے ہٹتے گئے اور قدرے مختلف شکل میں رائج ہوئے۔ فصاحت کی وجہ سے ایسے الفاظ و اصطلاحات کی بدلی صورتیں ہی قبول کر لی گئیں اور اصل سے بھی بڑھ کر مستعمل ہو گئے۔ ان الفاظ و فقرات کو ناصرف عوام بلکہ خواص و اساتذہ میں بھی برتا جانے لگا۔ اش اش اتنی ہوئی کہ عش عش ہو گئی۔ توتا بدلتے بدلتے پکا پکا طوطا بن چکا ہے۔ بقول یوسفی طوطا نہ صرف لکھنے میں برا لگتا ہے بلکہ اپنی طوئے کی وجہ سے چونچ بھی نظر آنے لگتی ہے۔ مباحث ہوتے ہی معرکہ آرا ہیں لہٰذا اردو تلفظ پر بھی اردو دان مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ویسے تو اب معرکہ آراء بھی معرکۃ الآرا ہے اس لئے کچھ کے ہاں تلفظ وہی درست ہے جو رائج الوقت ہے کیونکہ صوتی مجبوری اور ثقافتی مزاج تلفظ کو مختلف علاقوں میں قابل قبول بنا دیتا ہے۔

اردو کے مباحث میں غلط العام کا چلن عام ہے مگر چند ستم گزیدہ الفاظ تو معنویات کی دیوار میں ایسے چنوا دیئے گئے کہ شراب سیخ اور کباب بوتل میں جا پڑا ہے۔ ان کے جہان معنی میں زمیں و آسمان کا فرق ہے پر اپنے متضاد معنی میں طمطراق سے مستعمل ہیں اور خوب ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے اکثر غلط العام ہو کر مروج ہو چکے ہیں اور اساتذہ کی نذر میں بھی درست ہیں، چنداں ملاحظہ ہوں۔

مُغوی و مغویٰ : سب کا ادبی اجتہاد ہے کہ مغوی اغوا ہونے والے متاثرہ فرد کو کہتے ہیں۔ اکثر سنتے ہیں کہ پولیس نے مغوی کو ڈاکوئوں سے چھڑوا لیا۔ مقام حیرت ہے کہ مغوی کا اصل معنی اغوا کرنے والا ہے جسے ہم مدت سے الٹ مفہوم میں برتے جا رہے ہیں۔ اصل میں اغوا کار مغوی اور اغوا ہونے والا ’’مغویٰ‘‘ ہے۔

مُتوفی و متوفیٰ : ہمارے ہاں اکثر مرنے والے کو متوفی کہا جاتا ہے جو غلط ہے۔ متوفی فاعل ہے اور موت دینے والے کیلئے ہے جبکہ فوت شدہ کیلئے درست لفظ مُتوفیٰ ہے۔

راشی و مرتشی : عموماً رشوت لینے والے کو راشی سمجھا جاتا ہے حالانکہ راشی رشوت دینے اور مرتشی لینے والا ہے۔

استاد اور استاذ : دونوں میں فرق نہیں سمجھا جاتا مگر صحت کے اعتبار سے استاد ہر قسم کے عملی و فنی کام سکھانے والے کو کہتے ہیں جبکہ استاذ صرف فکری، علمی اور کتابی شعور دینے والے کیلئے ہے۔ استاد کی جمع اساتید اور استاذ کی جمع اساتذہ ہے۔

قرض دار اور قرض خواہ : عام طور پر مقروض کو قرض دار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ قرض دار، قرض دینے والا اور قرض خواہ لینے والا ہوتا ہے۔

طَلَبہ اور طُلَبا : طالب علم کی جمع طلبہ ہے جب کہ کسی بھی چیز کے طالب کی جمع طَلَبا یا طلاب ہے۔ تاہم دونوں ہی طالب علموں کے مستعمل ہیں۔ خیال رہے کہ طلبہ کے ط پر زبر جبکہ طلبا کے ط پر پیش ہے اور دونوں کی لام مفتوحہ ہے۔

مشکور، شکر گزار : یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مشکور کا درست مفہوم بھی عدم تفہیم کا شکار ہے۔ اس کے معنی شکر گزار کے نہیں بلکہ مشکور اس شخص کیلئے مختص ہے جو کسی پر احسان کرے اور اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ بہت سے مشاہیر اردو مشکور کو ہی شکر گزار کی درست تارید تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا ان مباحث میں سر پھاڑنے اور آنکھ پھوڑنے کی حد تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر میں التماس ہے کہ ’’برائے مہربانی‘‘ اور ’’براہ مہربانی‘‘ کی دھینگا مشتی میں احباب راہنمائی فرما کر ہمارے مشکور ہوں۔

امجد محمود چشتی ایک مزاح نگار اور ماہر تعلیم ہیں، ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان کے مضامین تقریبا ہر بڑے روزنامے میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

 

Advertisement