لاہور: (علی مصطفیٰ) صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اہم تقرریوں سے متعلق سمری پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر ہو گئے ہیں۔ اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہو گا، 29 نومبر کو امکان ہے ایک تقریب ہو گی، جنرل قمر جاوید باجوہ کمان نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سپرد کریں گے۔
جمعرات کی صبح ہی وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے منظوری کے بعد وزیراعظم نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں ایڈوائس صدرمملکت کو بھیجی تھی۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تقرری کی سمری ایوان صدر کو موصول ہوئی تھی جس کے بعد عارف علوی نے لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی اور پھر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ ایوان صدر میں صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر منظوری دی۔
اُدھر صدر عارف علوی نے چیف آف آرمی سٹاف عاصم نصیر اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ساحر شمشاد کی فی الفور جنرل کے عہدے پر ترقی اور عہدوں پر تعیناتی کر دی۔
جنرل عاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی کا اطلاق 29 نومبر 2022 ء سے ہو گا، صدر نے ترقیاں اور تعیناتیاں آئین کے آرٹیکل 243 چار اے اور بی، آرٹیکل 48 اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے سیکشن 8 اے اور 8 ڈی کے تحت کیں۔
جنرل عاصم منیر راولپنڈی میں ڈھیری حسن آباد کے رہائشی تھے اور ابتدائی تعلیم یہیں راولپنڈی صدر کے سرسید ڈگری کالج سے حاصل کی۔بطور طالب علم عاصم منیر سمیت ان کے تمام بھائی ہر شعبے میں آگے رہے اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے۔
یہ بھی پڑھیں:کون کون آرمی چیف کے عہدے پر رہ چکے ہیں؟
اس بار سینیئر ترین افسران کی تعیناتی کے باعث کوئی بھی افسر سپر سیڈ نہیں ہوا۔ پاک فوج میں لیفٹننٹ جنرل بننے والا ہر جنرل 3 برس کے لیے کام کرتا ہے اور اس مدت کے اختتام پر اگر اسے فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی نہ دی جائے تو وہ ریٹائر ہوکر گھر چلا جاتا ہے۔ فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی ملنے کی صورت میں وہ مزید 3 برس تک کام کرتا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ترقی پانے کے بعد اپریل 2019 میں لیفٹننٹ جنرل کا رینک لگایا تھا۔ وہ اپریل 2023 میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان تینوں جرنیلوں کے پاس اب 6 ماہ ہیں۔ اس دوران ان کا فوج کے اندر ہی مختلف پوزیشنوں پر تبادلہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنرل اظہرعباس اس وقت جی ایچ کیو میں چیف آف اسٹاف ہیں۔ ان کے تبادلے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جنرل نعمان محمود نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر ہیں جبکہ جنرل فیض حمید بہاولپور کور کی کمان کر رہے ہیں۔ چھٹے امیدوار لیفٹننٹ جنرل محمد عامر ستمبر 2023 میں ریٹائر ہوں گے۔
پاک فوج میں کمانڈ کی تبدیلی کی پر وقار تقریب کا انعقاد 29 نومبر کو ہونے کا امکان ہے، جہاں پر جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی کمان جنرل عاصم منیر کے سپرد کریں گے۔ اس طرح جنرل عاصم منیر ملک کے 17 ویں آرمی چیف کا منصب سنبھالیں گے۔
اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑی مشکل معاشی صورتحال ہے، پاک امریکا تعلقات، روس، چین، عرب ممالک سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاک فوج کا کردار بہت اہم ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی مشکل میں ہیں جنہیں سدھارنے کے لیے نئے سپہ سالار اپنا کردار ادا کریں گے۔
حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پر ہونے والے خلاء کی تقرریاں بھی آئندہ ماہ متوقع ہیں جبکہ امکان ہے کہ ترقی و تقرریاں کا فیصلہ بھی دسمبر میں ہو گا۔
6 سال قبل ہونے والی تقریب کا انعقاد راولپنڈی کے ہاکی سٹیڈیم میں ہوا تھا جہاں پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کی تھی۔ اس تقریب میں پاک فوج کے چاک و چوبند دستے نے شرکت کی تھی، اور دونوں کو گارڈ آف آرنر دیا تھا۔
29 نومبر کو ہونے والی تقریب کے بعد نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر تقریب سے خطاب کے دوران اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔
سمری کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ صدر کے سمری پر دستخط کر دیئے ہیں، جو ہم نے ایڈوائس بھیجی تھی اس پر عمل ہو گیا ہے۔ آرمی چیف نے کل جو گفتگو کی وہ ایک اچھا شگون ہے، تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے، اس سے ملک میں ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو گا۔
دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف سے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ساحر شمشاد نے ملاقات کی۔ ملاقات وزیراعظم ہائوس میں ہوئی، ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے پر نئے سپہ سالار کو مبارکباد دی۔
مزید برآں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے الوداعی ملاقات کی، دوران ملاقات عارف علوی نے جنرل ندیم رضا کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے انکی خدمات کو سراہا۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل عاصم منیر آرمی چیف تعینات، صدر عارف علوی نے سمری پر دستخط کر دیئے
بعدازاں وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم شہبازشریف سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے ملاقات کی، وزیراعظم نے جنرل ندیم رضا کی دفاع وطن کو مزید مضبوط بنانے اور آرمی کے ادارے کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
اس سے قبل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ساحر شمشاد اور نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے ایوان صدر میں صدرمملکت عارف علوی سے بھی ملاقات کی۔
وزیراعظم نے جنرل ندیم رضا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لئے آپ کی خدمات پر فخر ہے، آپ جیسے باوقار اور باصلاحیت افسر نے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے منصب پر نہایت شاندار خدمات انجام دیں۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل ندیم رضا کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے دوران ملکی سکیورٹی امور سمیت امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ فوجی قیادت کی تقرری کے معاملے پر فیصلہ میرٹ پر کیا گیا۔ سنیارٹی کے اصول پر فیصلہ ادارے کی مضبوطی اور استحکام کا باعث بنے گا۔ سنیارٹی کا اصول اداروں کو مضبوط بناتا ہے۔ معاشی مضبوطی کے لیے قومی مذاکرے کی تجویز پر قائم ہوں۔ معیشت مضبوط ہو گی۔ ملک میں انتشار اور افراتفری کی کوئی گنجائش نہیں۔
یاد رہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دراصل 2019 میں ریٹائر ہونا تھا تاہم ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے اگست 2019 میں ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی تھی۔
اگر پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جتنی سیاست اس تقرری پر ہوئی ہے اور جس حد تک سخت عوامی بحث اس تقرری کے حوالے سے ہوئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سابق وزیرِاعظم کی جانب سے فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو عوامی جلسوں میں موضوع بحث بنایا گیا جس سے یہ تقرری بھی سیاست کی نظر ہوئی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں نے ہی اس تقرری کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی۔
آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم شہباز شریف کے پاس تھا، ان کے اس اختیار کو عمران خان نے عوامی سطح پر چیلنج کیا اور کہا کہ وہ نیا آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
عمران خان نے کوشش کی شہباز شریف اپنا یہ اختیار استعمال کرنے کے بجائے عبوری سیٹ اپ تشکیل دے کر انتخابات کا اعلان کریں اور نومنتخب وزیراعظم یہ اختیار استعمال کریں لیکن اتحادی حکومت نے ان کی یہ تجویز مسترد کر دی۔
ہماری سیاست جنرل الیکشن اور جنرل کی سلیکشن کے درمیان کی دوڑ ہے اور دونوں ہی اہم ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تمام نظریں اس تعیناتی کے بعد آنے والے مستقبل پر تھیں۔ تعیناتی کے بعد شاید ڈیڑھ ماہ کے لیے سیز فائر دیکھیں۔ بہرحال نئے آرمی چیف کو فوری طور پر کام کرنا ہوگا۔ عمران خان کے لہجے میں نرمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس کا حصہ نہیں تھی تو وہ اس پورے عمل کو روک بھی سکتے تھے۔ لیکن ہم نے آرمی چیف کو عمران خان کے خلاف سخت بیانات دیتے ہوئے بھی دیکھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا عمران خان کی لڑائی صرف ایک شخص کے ساتھ تھی یا پھر پورے ادارے کے ساتھ۔
یہاں آئندہ انتخابات کا معاملہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو کہہ دیا ہے کہ اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ تاہم ہم اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ انتخابات میں کیا ہوگا کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ ایک فرد کے جانے کے بعد اس کی اختیار کی گئی پالیسیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔
عمران خان نے ماضی میں جس طرح جنرل باجوہ کے ساتھ ون پیج کی بات کی وہ مثالی تھا لیکن جس طرح ان کی راہیں جدا ہوئیں وہ بھی مثالی تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی سیاستدان نے یا وزیرِاعظم نے افراد کا نام لے کر اس طرح کھلے عام فوج کے حوالے سے تنقید کی ہو۔ وہ آنے والے دنوں میں کیا کریں گے، کیا اپنا بیانیہ برقرار رکھیں گے یا اسے تبدیل کریں گے یہ سب کچھ 26 نومبر کو بہت حد تک طے ہوجائے گا۔
جنرل عاصم منیر کون ہیں؟
جنرل عاصم منیر کو 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ تاہم اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لیے رہا اور آٹھ ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر عمل میں آیا۔
اس کے بعد جنرل عاصم منیر کو کور کمانڈر گوجرانوالا تعینات کیا گیا جہاں دو سال گزارنے کے بعد وہ جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ جنرل عاصم منیر، جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت بریگیڈیئر کے طور پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
معلومات کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہوں گے جو پاکستان ملٹری اکیڈمی لانگ کورس سے نہیں بلکہ او ٹی ایس کمیشنڈ آفیسر ہوں گے۔ وہ آفیسر منگلا میں ٹریننگ سکول سے پاس آؤٹ ہوئے اور فوج میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ آرمی میں او ٹی ایس پروگرام 1989 کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اور 1990 میں آفیسر ٹریننگ سکول کو جونیئر کیڈٹ اکیڈمی کا درجہ دیا گیا۔
جنرل ساحر شمشاد کون ہیں؟
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق 76 لانگ کورس اور سندھ رجمنٹ سے ہے، جو موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کی بھی یونٹ تھی۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا فوج میں بہت متاثر کن کیریئر رہا ہے۔ انہوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میڈیا کی توجہ حاصل کر رکھی تھی۔ انہوں نے سات برسوں کے دوران اہم لیڈرشپ عہدوں پر بھی کام کیا ہے۔
وہ جی ایچ کیو میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کور ٹیم کا حصہ تھے جس نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی اور کواڈریلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ میں بھی کام کرتے رہے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کو 2019 میں چیف جنرل سٹاف تعینات کیا گیا۔ اس عہدے کے باعث وہ خارجہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق اہم فیصلہ سازی میں بھی شامل رہے۔ دو سال اس عہدے پر رہنے کے بعد انہیں ستمبر 2021 میں کور کمانڈر راولپنڈی تعینات کر دیا گیا۔