قانون کے باوجود خواتین کی وراثت میں حصے کیلئے جدوجہد اور مشکلات

Published On 17 January,2023 03:19 pm

لاہور: (صباء چودھری)45 سالہ خالدہ بی بی جن کے شوہر کا چند سال قبل انتقال ہو گیا تھا شکر گڑھ میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی ہیں۔ چند ماہ سے وہ اپنے بھائیوں سے وراثت میں اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں۔

خالدہ بی بی کا کہنا ہے کہ میرے لیے کرائے کے مکان میں رہنا واقعی مشکل ہے اس لیے میں اپنی زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، حالانکہ اسلام مجھے اپنے والدین سے جائیداد لینے کا اتنا ہی حق دیتا ہے لیکن پھر بھی ہمارے گاؤں میں یہ دقیانوسی طرز عمل ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ بیٹیوں کو زمین میں ان کا حق نہیں لینا چاہیے۔

اسی طرح شکرگڑھ میں رہنے والی عابدہ بتاتی ہیں کہ جب اس نے وراثت میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی تو اسے اس کے خاندان میں کسی نے سنجیدہ نہیں لیا اور ہر کوئی اسے دھمکیاں دیتا اور جذباتی طور پر بلیک میل کرتا کہ اس نے اپنا حصہ لے کر کیا کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں نے عدالت میں اپنے کیس کی پیروی کی تو میرے بھائی نے مجھے اپنے گھر واپس نہ آنے کو کہا اور اس نے مجھ سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیے، اس کے باوجود میں نے اپنے وراثت کے حق کے لیے جدوجہد کی ۔ جس کے بعد انکو اپنا حصہ ملا، .لیکن اب اٹھ سال ہو گے ہیں اور آج تک میرے بھائی نے ہم سے بات نہیں کی اس وجہ سے۔

قانونی پچیدگیاں

عابدہ بتاتی ہیں سب سے بڑا چیلنج جس کا سامنا میں نے اپنی وراثت کے لیے کیس دائر کرتے ہوئے کیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ میں کچھ اراضی کا بینیفشری ہوں۔ وہ بہت ساری ڈوکومنٹس اکھٹی کرنا تھا کیوں کہ ہمارے علاقے کی زمین تب کمپیوٹرائزڈ نہیں تھی۔

دوسری بات یہ کہ مجھے وکلاء اور دوسرے لوگوں کو اتنی رقم ادا کرنی پڑتی تھی کہ بعض اوقات مجھے قرض بھی لینا پڑتا تھا۔ میں نے اپنی زمین حاصل کرنے کے لیے جو کل رقم ادا کی وہ 2 لاکھ سے زیادہ تھی، بعض اوقات وکلاء ہمارا کام نہیں کرتے کیونکہ وہ زیادہ پیسے چاہتے ہیں جو کہ بہت افسوسناک بات ہے۔

2011 کے انسداد خواتین پریکٹسز ایکٹ (فوجداری قانون میں ترمیم) کی دفعہ 498-A کے مطابق دھوکہ دہی یا غیر قانونی طریقوں سے خواتین کو وراثت کی جائیداد سے محروم کرنے پر قید کی سزا ہو سکتی ہے جس کی مدت دس سال تک ہو سکتی ہے۔

اس سلسلے میں منظور کیا گیا سب سے حالیہ بل، انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس (ترمیمی) بل، 2021، اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ خواتین کے جائیداد رکھنے اور رکھنے کے حق کو ہراساں کرنے، زبردستی، زبردستی یا دھوکہ دہی کے ذریعے پامال نہ کیا جائے۔ لیکن قانون کے باوجود خواتین کو چیلنجز کا سامنا ہے۔

شکر گڑھ کی عدالت میں کام کرنے والے ایڈووکیٹ قدیر خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے بہت سے کیسز لڑے ہیں لیکن انہیں سب سے زیادہ مشکل اس وقت درپیش ہوتی ہے جب لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور انہیں اپنے حقوق کے حوالے سے مناسب آگاہی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ نا امید ہوجاتے ہیں اور کبھی تو اپنا کیس بھی چھوڑ دیتے ہیں۔

نارووال میں اعدادو شمار کے مطابق 2010 سے لے کر 2022 تک عورتوں کے جائیداد کے 587 مقدمات درج ہوئے جن میں 2021 میں 62 کیسز اور 2022 میں 21 کیسز دائر ہوئے اور اس وقت پینڈنگ کیسز کی تعداد 43 ہے۔

لیکن مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ بہت ساری خواتین اپنے حقوق کو تسلیم کر رہی ہیں اور اپنے مقدمات لڑ رہی ہیں۔ چند سال پہلے یہ ممکن نہ تھا۔ جب کوئی ہمارے پاس آتا ہے تو ہم ان کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دیہی علاقوں میں زیادہ تر خواتین کو وراثت میں زمین ملتی ہے لیکن زمین خریدنے کا کوئی رجحان نہیں ہے۔

شفافیت اورمعلومات کا قانون استعمال کرتے ہوئے لی جانے والی انفارمشین کے مطابق شکر گڑھ میں تقریباً 232745 اراضی مالکان ہیں جن میں سے صرف 28000 خواتین کے پاس زمین ہے جو کہ محض 2 فیصد بنتی ہے۔

شکر گڑھ تھانے کے اہلکار بتاتے ہیں کہ جب بھی انہیں تنازعات کے حوالے سے کوئی شکایت ملتی ہے تو وہ کارروائی کرتے ہیں۔ انہیں 2022 میں 19، 2021 میں 10 اور 2020 میں 6 شکایات موصول ہوئیں جن میں خواتین نے وراثتی جھگڑوں کی وجہ سے تشدد کی شکایت کی لیکن انہوں نے اس کے بعد صلح کرنے کی بنیاد پر کیس کو چھوڑ دیا اور مقدمہ خارج کروا دیا۔

ان میں سے ایک کیس امرت خان کا ہے جس نے اپنے رشتے داروں سے اپنا جائیداد میں حصہ لینے کے لئے کیس فائل کیا تھا۔ لیکن اس کو اس بات پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا.۔لیکن بعد میں انہوں نے صلح کرنے کی بنیاد پر اپنا کیس واپس لے لیا۔
 

Advertisement