لاہور: (فرخ احمد) دونوں صوبائی گورنرز اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے معذوری کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے بازی لے گئے، انہوں نے الیکشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 57 ون کے تحت دونوں صوبوں میں انتخابات کروانے کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل
ملک میں نئے انتخابات کرانے کیلئے تحریک انصاف نے دو صوبوں میں اپنی حکومت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، اس ضمن میں پنجاب کی اسمبلی 14 جنوری 2023 کو جبکہ اس کے 4 دن بعد 18 جنوری 2023ء کو خیبرپختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا تھا، پنجاب میں گورنر کی جانب سے سمری پر دستخط کرنے سے انکار کی وجہ سے آئینی طور پر اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد گورنرز کی جانب سے انتخابات کرانے کی تاریخ نہیں دی گئی، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے دونوں صوبوں کے گورنرز کو تاریخ دینے کیلئے خط بھی لکھے، پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان نے خط کے جواب میں تاریخ دینے سے معذرت کی جبکہ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے الیکشن کمیشن کو معاون اداروں سے مشاورت کر کے انتخابات کرانے کا مشورہ دیا۔
دونوں گورنرز کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خطوط کا واضح جواب نہ دینے پر پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کی جس پر 11 فروری کو عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے 16 صفحات کا فیصلہ جاری کیا تھا، گورنر پنجاب کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا گیا، یوں پنجاب میں انتخابات کا معاملہ ایک بار پھر ہائی کورٹ کے پاس چلا گیا، اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا کیس سننے والے 2 رکنی بینچ نے چیف جسٹس کو انتخابات میں تاخیر کا معاملہ ازخود نوٹس لینے کیلئے بھجوایا تھا۔
صدر نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ون کے تحت تاریخ کا اعلان کیا
اسمبلیوں کی تحلیل کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو دونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مشاورت کی دعوت دینے کیلئے خط لکھا لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا تاہم صدر نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ون کے تحت 9 اپریل 2023 بروز اتوار کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا، صدر نے ایک اور سیکشن 57 ٹو کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابات کا پروگرام جاری کرنے کا حکم دیا۔
صدر نے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ میں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں، لہٰذا سیکشن 57 ون کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کیلئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔
صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ازخود اپنے اختیارات استعمال کر سکتے ہیں اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ون کے تحت صدر نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے وہ اس حوالے سے کیا حدود متعین کرتا ہے اس پر ہم تھوڑی روشنی ڈال لیتے ہیں، آئین میں درج الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 ون کے مطابق صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں، جبکہ سیکشن 57 ٹو کے تحت انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے 7 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو گزٹ اور ویب سائٹ پر متعلقہ اسمبلی کے ووٹرز کو اپنے حلقوں میں نمائندے چننے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے۔
ماہرین کی صدر کے حوالے سے مختلف رائے
ماہرین نے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 ون کے مطابق الیکشن کمیشن سے مشاورت کیے بغیر صدر کی جانب سے خود ہی انتخابات کی تاریخ دینے کے اعلان کو غیر آئینی قرار دیا ہے، اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان کا یہ اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 ون کے تحت صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت کے بعد انتخابات کی تایخ دے سکتے ہیں مگر اس معاملے میں انہوں نے الیکشن کمیشن سے مشاورت والی شرط پوری نہیں کی اور ایسا عمل کر کے انہوں نے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کے مرتکب ہوئے ہیں، اس پر ان کے خلاف عدالتی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
کنور دلشاد نے مزید کہا کہ صدر نے یہ اعلان کر کے اٹھارویں ترمیم کو بھی چیلنج کیا ہے، انہوں نے ماضی میں صدر علوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی کا بھی ذکر کیا جب انہوں نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں 2 ممبرز کا تقرر کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنا چاہیے تھا تاکہ عدالت عظمٰی اس کا فیصلہ کرتی۔
صدر کے اعلان کے حوالے سے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 ون صدر پاکستان کو شرائط پر عمل درآمد کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار ضرور دیتا ہے مگر اس سے پہلے ان کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کی شرط کو پورا کرنا تھا مگر انہوں نے اس شرط پر عمل نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، یہ حکم نامہ جاری کر کے ایک اور آئینی بحران پیدا کر دیا ہے اور اب اس کا فیصلہ عدالتیں ہی کریں گی، ہم صدارتی نظام میں نہیں کہ صدر کے پاس ایسے اعلان کرنے کی ایگزیکٹو پاورز ہوں، آئین کے آرٹیکل 48 ون کے تحت صدر پاکستان وزیر اعظم کی ایڈوائز کے بعد ہی کوئی اعلان کر سکتے ہیں، ان کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے تحت اگر گورنز نے اسمبلی کی تحلیل کی ہو تو وہ انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند ہو گا۔
معاملے کا عدالتیں ہی فیصلہ کریں گی: ڈاکٹر حسن عسکری، مجیب الرحمان شامی
اس حوالے سے ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے کچھ مختلف تھی ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے صوبائی گورنروں نے کرنا تھے جب وہ اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے تو صدر پاکستان نے یہ کارروائی کی 90 روز میں الیکشن نہ کرانا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے، اب الیکشن کمیشن یا وفاقی حکومت اس اعلان کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور اس کا فیصلہ عدالتیں ہی کریں گی۔
سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے بھی صدر علوی کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں جانے کا قوی امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اب عدالتیں ہی اس کا فیصلہ کریں گی، ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کیساتھ بیٹھنے اور معاملات کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کو تیار نہیں جو افسوس ناک ہے، سیاسی جماعتیں صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔
آئینی ماہر سعد رسول نے صدر کے اقدام کے حوالے سے کہا کہ جب عہدے دار اپنا کردار آئین پاکستان کے مطابق ادا نہیں کریں گے تو ایسے فیصلے دیکھنے میں آتے ہیں، آپ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن کے 10 فروری کے فیصلے کو ہی دیکھ لیں جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔
سعد رسول نے مزید کہا 17 فروری کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کیس کی کارروائی کے دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اظہار برہمی کیا تھا، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ 90 روز میں الیکشن نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے، یہ معاملہ بھی اعلیٰ عدلیہ کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے، حکومت اور الیکشن کمیشن کے پاس کچھ مخصوص حالات میں انتخابات کا شیڈول آگے کرنے کی آئینی گنجائش موجود ضرور ہے مگر عدالتیں اس تاخیر کی وجہ ضرور مانگیں گی۔