بیکٹیریا اور انسان

Last Updated On 11 November,2018 08:09 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) بیکٹیریا ہر طرف ہیں۔ یہ ہمارے جسم کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں اتنے ہی بیکٹیریا ہوتے ہیں جتنے خلیے۔

دراصل ہم فضا میں اپنے گرد بیکٹیریا کا ایک بادل سا لیے پھرتے ہیں۔ بیکٹیریا زمین، خوراک اور چھوئی جانے والی سطح پر ہمہ وقت موجود ہیں، یہاں تک کہ ہمارے موبائل فون کی سطح ان سے بھری ہوتی ہے۔ بیکٹیریا اچھے ہو سکتے ہیں۔ نظام انہضام کے راستے ان بیکٹیریا سے بھرے پڑے ہیں جو ہضم کرنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں۔ گوبھی کے اچار اور دہی جیسی کھانے کی اشیا بیکٹیریا کی مدد سے بنتی ہیں اور ان میں یہ کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ لیکن بیکٹیریا برے بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ ہماری جلد میں سے داخل ہو کر یا ہمارا دفاعی نظام توڑ کر غلط جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں اور انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارا جسم بیکٹیریا کا مقابلہ کیسے کرتا ہے؟ بیکٹیریا کو ایسے مقامات تک جانے سے روکنے کے لیے کہ جہاں وہ نقصان پہنچا سکیں، ہمارا ایک مضبوط جسمانی نظام موجود ہے۔ لیکن اگر بیکٹیریا داخل ہو جائیں تو ہمارا جسم انہیں شناخت کرنے، علیحدہ اور غیر فعال کرنے کے لیے مختلف طرح کے داخلی دفاعی طریقے اپناتا ہے۔ بیکٹیریا کی انفیکشن تب ہوتی ہے جب ان میں سے کوئی طریقہ مؤثر نہ رہے۔ جلد کو زخم، خراش یا سرجری سے ہونے والا نقصان بیکٹیریا کو جسم میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ممکن ہے اتنے زیادہ بیکٹیریا چلے جائیں کہ جسمانی مدافعتی نظام ان کا مقابلہ ہی نہ کر پائے۔ دوسری طرف جب اندرونی مدافعتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے، مثلاً کیموتھراپی یا بیماری کی وجہ سے، تو بیکٹیریا وہاں پہنچ کر قیام کرنے لگتے ہیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیے۔

دونوں معاملوں میں ’’موقع پرست‘‘ بیکٹیریا مداخلت کرتے اور نمو پاتے ہیں۔ اس قسم کے بیکٹیریا کو مرض آور یا پیتھوجینک کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیکٹیریا کی بعض اقسام سے ہمیں انفیکشن ہوتی ہے جبکہ دوسری سے نہیں، مثلاً جو بیکٹیریا دہی میں پائے جاتے ہیں، انفیکشن کا باعث نہیں بنتے۔ انسان اور بیکٹیریا میں ایک ساتھ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے ’’سپر بَگز‘‘ یعنی وہ بیکٹیریا جن میں اینٹی بائیوٹکس کی مزاحمت پیدا ہو چکی ہے، موجودگی کے باوجود فوری طور پر خطرناک نہیں ہوتے۔ اینٹی بائیوٹک عنصر میتھی سیلین کی مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا ایس آورئس کا پتا کئی دہائیاں پہلے سے لگ چکا ہے۔ تقریباً ہر فرد کے جسم پر، بالخصوص ناک کے گرد، یہ بیکٹیریا پایا جاتا ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں بیکٹیریا کی وہ قسم پائی جاتی ہے جن میں مختلف اینٹی بائیوٹکس کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب تک ایس آورئس جلد پر رہتا ہے یہ مسئلہ پیدا نہیں کرتا لیکن اگر یہ جسمانی رکاوٹوں کو عبور کر نے میں کامیاب ہو جائے تو یہ درست قسم کی اینٹی بائیوٹک استعمال نہ کرنے کی صورت میں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان بیکٹیریا کا بھی خاصا خوف پیدا ہو چکا ہے جنہوں نے تقریباً ہر طرح کی اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔ یہ ’’گرام نیگیٹو‘‘ بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا کی وہ نوع ہے جن میں ایک اضافی حفاظتی بیرونی تہہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس کے لیے انہیں مارنا پہلے ہی مشکل ہوتا ہے۔

ان کی ایک خطرناک قسم ’’اینٹرو بیکٹیریاسی‘‘ ہے جس میں اینٹی بائیوٹک عنصر ’’کارباپینم‘‘ کی مزاحمت پائی جاتی ہے، اس کے شکار 40 فیصد مریض ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیکٹیریا نے آج کل کی انتہائی طاقت ور اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کر لی ہے۔ ان بیکٹیریا سے 2008ء سے 2012ء تک فلوریڈا، امریکا میں 20 مریض ہلاک ہوئے۔ اسی طرح سُپربَگ ’’کے نمونیائی‘‘ بیکٹیریا کی ایک امریکی ہسپتال میں پھیلنے والی وبا سے 17 میں سے چھ مریض ہلاک ہو گئے۔ خوش قسمتی سے ایسے واقعات بہت کم ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پرسفربہت بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے ان کی منتقلی کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ بہر حال سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا ان سے بچاؤ کا سب سے اچھا طریقہ ہے۔

مارک بالسووچ (ترجمہ: رضوان عطا)