اقوام متحدہ: 2016ء تاریخ کا گرم ترین سال قرار

Last Updated On 18 January,2020 09:19 am

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کہی پر غیر متوقع طور پر بارش، کہی برفباری، کہی پر شدید گرمی پڑھ رہی ہے، اس سال کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ امریکا کے کچھ حصوں میں جنوری کے مہینے میں ریکارڈ گرمی پڑ رہی ہے جبکہ لاہور اور دہلی جیسے گرم شہر تاریخی سردی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ صحراؤں میں آباد ملک دبئی میں شدید بارشیں برس رہی ہیں۔ اب موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک خبر اقوام متحدہ کی طرف سے سامنے آئی ہے، عالمی ادارے کے مطابق 2016ء تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ گزشتہ دہائی گرم ترین دہائی تھی جبکہ 2019ء کو تاریخ کا دوسرا گرم ترین سال قرار دیا گیا ہے اور ریکارڈ کے مطابق اب تک کا سب سے گرم سال 2016ء تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سمندروں کے درجہ حرارت میں خوفناک اضافہ ہونے لگا: نئی تحقیق

عالمی محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ 1980ء سے لیکر اب تک ہر دہائی پچھلے عہد کی نسبت زیادہ گرم رہی۔ اس رحجان کے آگے بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ڈبلیو ایم او کی یہ تحقیق پوری دنیا سے اکٹھے کیے گیے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

عالمی محکمہ موسمیات کے سربراہ پیٹیری ٹالس کا کہنا تھا کہ 2020ء کا آغاز وہیں سے ہوا ہے جہاں گرم درجہ حرارت اور بدلتے موسمی حالات کے ساتھ 2019ء کو چھوڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے 2020ء اور آنے والی دہائیوں میں بھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے بہت زیادہ شدید موسم دیکھنے کو ملے گا۔

اس موقع پر ٹالس نے خاص طور پر آسٹریلیا کی جنگلاتی آگ کا حوالہ دیا جس میں کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک، سینکڑوں بے گھر اور تقریبا ایک ارب جانور ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا: آگ لگنے سے تقریباً 48 کروڑ جانور ہلاک، 30 لاکھ ہیکڑ رقبہ جل کر راکھ

اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ پیرس میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے پرکئی ممالک نے اس عہد کے ساتھ دستخط کیے تھے کہ 2030ء تک ہر سال ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو سات اعشارہ چھ فیصد تک کم کیا جائے تا کہ زمینی حدت کو ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ اور دو اعشاریہ سات فارن ہائیٹ تک محدود کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مریخ پر جوہری بم گرائیں: چیف ایگزیکٹو ٹیسلا کمپنی

ٹالس کے مطابق جدید موسمی ریکارڈ رکھنے کا آغاز 1850ء میں ہوا اور تب سے اب تک عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً ایک اعشاریہ ایک درجے کا اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ دنیا کی بیشتر حرارت سمندروں میں محفوظ ہے، اس وجہ سے سمندری حیات اور ماحولیاتی نظام سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اس کا ثبوت مچھلیوں اور کورل ریف کا بڑے پیمانے پر خاتمہ ہے۔

ٹالس کا کہنا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو صدی کے آخر تک درجہ حرارت میں تین سے پانچ ڈگری اضافے کا امکان ہے۔
 

Advertisement