نیو یارک: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے تحقیق میں مدد کے لیے وہ وائرس کی علامات رکھنے والے صارفین کا ڈیٹا جمع کرنے اور طبی ضروریات کے تعین کے لیے سروے کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق کارنیگی میلن یونیورسٹی نے تحقیقی منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت سروے کے ذریعے اعداد و شمار اور معلومات جمع کی جائیں گی۔ جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ کن مقامات میں وبا کے کیا اثرات ہیں اور ان علاقوں میں کیا ضروریات ہیں۔
فیس بک کے مطابق مخصوص صارفین کو ان کی نیوز فیڈ میں سب سے اوپر ایک نشان آئے گا جس میں واضح ہوگا کہ وہ سروے کا حصہ بنیں۔
تحقیقی ماہرین کے مطابق یہ سروے ان امکانات میں معاون ثابت ہوگا کہ کن علاقوں میں کیا طبی ضروریات ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق فیس بک کا کہنا ہے کہ اگر تحقیق کورونا وائرس کے انسداد میں معاون ثابت ہوئی تو سروے دیگر ممالک میں بھی صارفین کے لیے پیش کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ فیس بک کی حریف کمپنی گوگل نے بھی گزشتہ ماہ اسی طرح کا سروے کیا تھا۔
سروے کے حوالے سے فیس بک کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے دوران کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین کسی شخص کا انفرای سروے فیس بک انتظامیہ کے ساتھ زیر بحث نہیں لائے گی جبکہ فیس بک بھی بحیثیت ادارہ کسی کی انفرادی معلومات محققین کو فراہم نہیں کرے گا۔
فیس بک کا مزید کہنا تھا کہ ڈیزیز پریوینٹیشن پروگرام کے تحت فیس بک اعداد و شمار اور معلومات کی درجہ بندی کرے گا۔ جو وبائی امراض پر کام کرنے والے ماہرین کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔
فیس بک کی جانب سے لوگوں کی نقل و حرکت کے مجموعی اعداد و شمار بھی مختلف ممالک میں ماہرین کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی مدد سے ماہرین ان ممالک میں انتظامیہ کو آگاہ کرتے ہیں کہ شہریوں کی مجموعی نقل وحرکت کیا ہے جس سے انتظامیہ کو اقدامات کرنے میں آسانی ہو سکے۔ فیس بک لوگوں کی مجموعی نقل و حرکت کے اعداد و شمار کے حوالے سے معلومات کے مزید انڈیکس بھی بنا رہی ہے۔
فیس بک کی اعداد و شمار کے حوالے سے پروگرام کی سربراہ لورا میک گورمین کا کہنا ہے کہ انڈیکس کرونا وائرس سے ہونے والے معاشی نقصانات کا اندازہ لگانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی واضح کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کس علاقے میں کن لوگوں کو کس طرح مدد فراہم کی جائے اور یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کس قسم کی مدد درکار ہے۔