لاہور: (وقاض ریاض) گزشتہ دہائی میں پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا اور اب آئندہ آنے والی دہائیوں تک ’’ماحولیاتی دہشت گردی‘‘ کا شکار رہے گا۔
یوں تو گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا پوری دنیا کو ہے مگر پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس نہج تک پہنچنے میں کس نے کتنا حصہ ڈالا ہے۔ گزشتہ تین برس ریکارڈڈ انسانی تاریخ کے سب سے گرم سال تھے۔
زمین پر موسموں کا بدلاؤ اس کے اپنے محور پر جھکاؤ جو تقریباً 25 ڈگری ہے، کی وجہ سے آتے ہیں۔ زمین کے شمالی کرے پر آدھا سال سورج کی روشنی زیادہ دورانیے تک پڑتی ہے تو وہاں موسمِ گرم ہوتا ہے، اْسی وقت جنوبی حصے پر روشنی کم دورانیے تک پڑتی ہے تو وہاں موسم سرد ہوتا ہے۔ زمین کی فضا کا اس کے موسموں اور درجہ حرارت سے گہرا تعلق ہے۔ اگر زمین کی فضا نہ ہوتی تو شاید یہ ایک ٹھنڈا سیارہ ہوتا۔
زمین کی فضا میں کئی گرین ہاؤس گیسز موجود ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین اورآبی بخارات سر فہرست ہیں۔ یہ گیسز سورج کی حرارت کو جذب کر کے زمین پر اوسط درجہ حرارت بڑھاتی ہیں۔ اگر فضا میں ان گیسز کی مقدار معمول سے بڑھ جائے تو زمین پر اوسط درجہ حرارت بھی بڑھ جائے گا۔ اس سے غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ گرمی کی شدت بڑھتی ہے، شدید موسموں کے دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے سے سیلاب، قحط، طوفان اور قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتا ہے۔گویا انسانی سرگرمیوں سے پیدا کردہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے دنیا تباہی کے دہانے پر جا سکتی ہے۔
کوئلے اور زمین سے نکلنے والا ایندھن یعنی پیٹرول، ڈیزل وغیرہ سے مشینیں، ریل گاڑیاں ہوائی جہاز چلانے کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسز کی مقدار فضا میں بڑھ رہی ہے۔ ان انسانی سرگرمیوں اور عوامی رویوں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج دنیا کیلئے ایک ٹائم بم کی صورت اختیار کر گیا ہے جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوردیگر فضا دشمن صنعتی گیسز شامل تھیں۔ کاربن ایمیشن کا ایک پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کونسا ملک ہر سال کتنی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ماحول میں کرتا ہے۔ یہ اخراج مختلف عوامل پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر زراعت میں ہونے والی سرگرمیاں، گوشت کی پیداوار، ذرائع آمد و رفت ، صنعتی پیداوار وغیرہ وغیرہ۔
جس ملک کی کاربن ایمیشن زیادہ ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔اگر ہم اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو دنیا میں 1950ء تک کل کاربن ایمیشن تقریباً5.6ارب ٹن تھی۔ یعنی5.6 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بالواسطہ یا بلاواسطہ فضا میں خارج ہو رہی تھی۔ 1990ء میں یہ چار گنا بڑھ کر 22 ارب ٹن تک پہنچ گئی۔ آج یہ 36 ارب ٹن سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔بیسویں صدی کے آغاز سے وسط تک دنیا میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے ممالک میں امریکہ، یورپین یونین اور روس شامل تھے۔ان کی مجموعی کاربن ایمیشن دنیا کی کل ایمیشن کا 90 فیصد تھی۔
1950ء کے بعد ایشیائی ممالک جیسے کہ چین، بھارت، سعودی عرب، انڈونیشا، وغیرہ میں آبادی کے اضافے اور صنعتی ترقی نے بھی کاربن ایمیشن میں خاطر خواہ حصہ ڈالنا شروع کیا۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک دنیا کی کل کاربن ایمیشن کا ایک تہائی پیدا کرتے ہیں جبکہ باقی چین، بھارت اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کے کھاتے میں ہے۔
پاکستان کا کاربن ایمیشن میں حصہ بے حد کم ہے۔ 2020 ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 202 کلو ٹن کاربن ایمیشن کرتا ہے جو دنیا کے کل ایمیشن کا 0.6 فیصد سے بھی کم ہے۔یہ اس لیے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں صنعتی پیداوار کم ہے۔ بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور ذرائع آمد و رفت اور رہن سہن سادہ ہے۔ پھر بھی پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ جس سے یہ ہر سال آنے والے قحط، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے نبرد آزما رہتا ہے۔
اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کا محور ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے ممکنہ اثرات کو رکھے۔ کیونکہ یہ مسئلہ معیشت اور یہاں بسنے والے افراد اور اْن کی آئندہ نسلوں کی بقا ء کیلئے سب سے اہم ہے۔ داخلی پالیسیوں میں ماحولیات کا تحفظ، شجرکاری، عوام میں ماحول دوست عادتیں اور اطوار پھیلانے کی کوشش، بہتر قانون سازی اور ماحول دوست توانائی کے متبادل ڈھونڈنا شامل ہیں۔خارجی پالیسیوں میں 2016 ء میں ہونے والے عالمی پیرس ماحولیاتی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وقاض ریاض سرکاری یونیورسٹی میں ریسرچر ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔