بھمبور: (دنیا نیوز) کراچی شہر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود سسی کے شہر بھمبور کے آثار قدیمہ، اس کی بندرگاہ اور ساحل سمندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کراچی سے گھارو جاتے ہوئے نیشنل ہائی وے پر چھوٹا سا سائن بورڈ دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ بھمبور کا پتا دیتا ہے۔ بھمبور میں 3 مختلف ادوار کی آبادیوں کے آثار ملے ہیں جو کہ پہلی صدی قبل مسیح سے شروع ہوتے ہیں۔
کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ دیبل کی بندرگارہ بھی یہی ہے اور محمد بن قاسم نے سندھ میں داخلے کے لیے یہی اپنی فوجیں اتاریں اور جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد تعمیر کی۔
یہاں کے راجہ بہرمن کی بیٹی سے متعلق سندھ کی رومانوی داستان سسی پنوں کے قصے کا مرکز یہی شہر بھنبھور ہے۔ پنوں مکران کا بلوچ شہزادہ تھا اس لیے بلوچ قوم کے لوگوں نے سسی سے پنوں کی محبت کے طور پر مری پہاڑوں کی ایک چوٹی کا نام بھی بھنبھور رکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنبھور ایک قدیم شہر ہے جس کا ذکر مختلف تاریخی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔
یہاں کا خوبصورت ساحل اپنی اندر مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔
دریائے سندھ کے رخ بدلنے کے بعد اس شہر کی اہمیت ختم ہوگئی اور رفتہ رفتہ بھمبور ملبے کا ڈھیر بن گیا، اب یہاں سے ملنے والی باقیات کو میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔
بھمبور کو اسکی تاریخی اہمیت کے باعث عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔
بھمبور کے آثار قدیمہ اور ساحل سمندر کو سیاحتی نقطہ نظر سے مزید بہتر کیا جائے تو سیاحوں کے لیے ایک نیا پیکنک پوائنٹ بن سکتا ہے۔