لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں ڈی این اے ٹیسٹ اہمیت کا حامل ہے، کسی ہلاک شدہ شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ ہلاکت کیسے ممکن ہوئی۔ تاہم ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے ایک حیران کن خبر سامنے آئی ہے جو ڈنمارک سے ہے جہاں پر سائنسدانوں نے پانچ ہزار برس سے زائد پرانے درخت کی گوند سے انسان کا مکمل ڈی این اے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ڈی این اے ایک لڑکی کا ہے جس کی رنگت اور بال کالے تھے جبکہ اس لڑکی کی آنکھیں نیلی تھیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’’ڈیلی میل‘‘ کے مطابق ڈنمارک کے سائسدانوں کی تحقیق کے مطابق لڑکی نے آخری مرتبہ کیا کھایا ہے اور اس کے منہ میں جراثیم تھے۔ ڈی این اے سے سائنسدانوں کو اس بات کا بھی علم ہوا ہے کہ شاید یہ لڑکی دودھ آسانی سے ہضم نہیں کر سکتی تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ لڑکی کا تعلق جنیاتی طور پر مرکزی یورپ کے شکاری خانہ بدوشوں سے زیادہ قریب تھا نہ کہ اس وقت کے مرکزی سکینڈی نیویا سے۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے محقق ہینس شروڈر نے خبر رساں ایجنسی ’’اے ایف پی‘‘ کو بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی انسان کی جینیاتی معلومات اس کے ہڈیوں کی بجائے کسی دوسری چیز سے حاصل کی گئی ہوں۔ یہ ڈی این اے 5 ہزار 70 برس پرانا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ہینس شروڈر تحقیق کے شریک مصنف ہیں۔ ان کی یہ تحقیق نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق ڈی این اے سے سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہاں کون لوگ رہ رہے تھے، وہ کس قسم کی خوارک کھا رہے تھے اور ان کے دانتوں پر کون سا بیکٹریا تھا۔
ایک اور محقق جینسن کہتے ہیں کہ انکو ڈی این اے کا نمونہ جنوبی ڈنمارک میں کھدائی کے وقت ملا۔ محقیقین کو آثار قدیمہ کی اس مقام سے جانوروں اور پودوں کے ڈی این اے بھی ملے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگ مچھلی کھانے، شکار کرنے اور جنگلی گری دار میوؤں پر گزارا کرتے تھے۔