لاہور: (سپیشل فیچر) قدیم مصر میں ایک وسیع احاطے میں مرکزی جگہ تھی جہاں لوگوں کو ان کی موت کے بعد حنوط کرکے ان کی ممیاں تیار کی جاتی تھیں۔ پرانے زمانے میں ممی بنانے کا کیا طریقہ رائج تھا اور اس عمل میں کتنا وقت لگتا تھا؟ آئیے اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔
اس کا آغاز کچھ اس طرح کیا جاتا تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو گھر میں اس کی موت کی مروجہ رسومات کے مکمل ہونے کے بعد اس کی لاش کو اس مرکزی معبد میں لا کر بڑے پجاری کے حوالے کر دیا جاتا تھا جو اسے اس چبوترے پر لٹا کر حنوط کرنے کے عمل کا آغاز کرتا تھا۔
چونکہ ان کا ایمان تھا کہ یہ مرے ہوئے لوگ ایک بار پھر سے زندہ ہوں گے اس لئے ان کے جسم کے سارے اعضا کو بھی نکال کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے مردے کے بائیں پہلو میں شگاف لگا کر جسم سے نسبتاً جلد خراب ہونے والے نرم اجزا جیسے معدہ، انتڑیاں، جگر، دل اور پھیپھڑے نکال لیتے ،پھر ایک مخصوص آلے سے ناک کے ذریعے اس کے دماغ کو بھی ایک خاص ترکیب سے باہر کھینچ لیتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ ایک غیر ضروری چیز تھی، جس کو حنوط کرنا ضروری نہیں تھا۔ اس لئے وہ اس کو ضائع کر دیتے تھے۔
دل کو البتہ اس کی اپنی جگہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا تھا کیونکہ اس کو عقل اور دانش کا منبع تصور کیا جاتا تھا۔ اس دوران لاش کی چیر پھاڑ کرنے والے پجاری اپنے چہرے پر ایسے نقاب چڑھائے رکھتے جن پر مختلف جانوروں کی شکلیں بنی ہوتی تھیں تاکہ مردے کی حفاظت کرنے والے دیوتا ان کو پہچان نہ سکیں اور ان کا یہ عمل کہیں بعد ازاں ان کے لئے کسی تباہی کا پیغام نہ بن جائے۔
چبوترے کے پاس ہی کھڑا ہوا بڑا پروہت اس دوران بلند آواز میں منتر پڑھتا رہتا اور ان چیر پھاڑ کرنے والے پجاریوں پر مسلسل چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکتا تاکہ دیوتاؤں کو ان لوگوں سے اپنی نفرت کے اظہار کا تاثر دیا جا سکے جو اس لاش کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ یہ ان کی رسم یا عقیدے میں شامل تھا۔
اس کے بعد وہ لاش کے اندرونی اجزا کو ایک خاص قسم کے نمک اور مصالحہ وغیرہ لگا کر دھوتے اور پھر ان کو خشک ہونے کے لئے محفوظ جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ پھر لاش کو حنوط کرنے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔
پجاری لاش کو اچھی طرح ایک خاص نمک والے پانی سے مسلسل دھوتے۔ اس کے لئے وہ شراب بھی استعمال کرتے جو اینٹی بائیوٹک کا کام کرتی تھی۔ پھر وہ کچھ اور کیمیائی اجزا استعمال کرکے لاش کو چالیس دنوں کے لئے ملحقہ کمرے میں سوکھنے کے لئے رکھ دیا کرتے تھے۔
جب لاش اچھی طرح خشک ہو کر سوکھ جاتی تو وہ سکڑ جاتی تھی اور اس کے جسم پر جھریاں بھی پڑ جاتی تھیں، جن کو نرم کرنے کے لئے اس پر مسلسل کئی روزتک مختلف تیلوں کی مالش کی جاتی تھی، جس سے جسم ایک بار پھر نرم پڑ جاتا تھا اور جھریاں بھی غائب ہو جاتی تھیں۔
اس کے بعد وہ پیٹ اور دیگر خالی ہو جانے والی جگہوں کو بیروزے میں بھیگے ہوئے لکڑی کے برادے، گھاس پھوس اور کپڑے کی کترنوں سے بھر دیتے تاکہ وہ ابھرے ہوئے محسوس ہوں اور قدرتی نظر آئیں۔
آخری مرحلے میں اس پر موم اور تیل میں ڈوبی ہوئی سوتی پٹیوں کو باندھنا شروع کیا جاتا۔ پٹیوں کی کچھ پرتوں کو لپیٹنے کے بعد ان میں مرنے والے کا نام اور قبیلے یا سوسائٹی میں اس کے مقام کے بارے میں لکھی ہوئی لکڑی کی چھوٹی چھوٹی تختیاں رکھ دی جاتیں۔
اس کے علاوہ مردے کی مالی حیثیت کے مطابق ان پٹیوں میں طلائی زیورات قیمتی پتھر یا ہیرے جواہرات وغیرہ بھی رکھے جاتے تھے۔
علاوہ ازیں پٹیوں کے آخری سرے پر ایک بار پھر مردے کا نام وغیرہ تحریر کرکے ان کے اوپر کوئی گوند نما مصالحہ ڈال کر جوڑ دیا جاتا تھا۔ اب گویا لاش کے حنوط کرنے کا عمل مکمل ہو گیا۔
اسی دوران جب جسم کے اندر سے نکالے گئے اجزا خشک ہو جاتے تو ان کو بھی ایک خاص طریقے سے حنوط کرکے مٹی سے مزین مرتبانوں میں رکھ دیا جاتا تھا۔ یہ چار مرتبان ہوتے تھے جن کے ڈھکن مختلف اشکال اور جانوروں کے چہروں سے مشابہ ہوتے تھے۔
یہ ان کے چار اہم دیوتاؤں سے مشابہت رکھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ ان اجزا کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ ایک مرتبان کا ڈھکن گیدڑ، ایک عقاب، ایک ببون بندر اور ایک انسانی شکل میں بنا ہوا ہوتا تھا اور ہر ایک مرتبان جسم کے مخصوص حصے کو حنوط کرنے کے کام آتا۔
مثلاً گیدڑ کے ڈھکن والا مرتبان معدے اور عقاب والا انتڑیوں کے اجزا کے لئے مخصوص ہوتا تھا۔
اسی طرح بندر کے ڈھکن والے مرتبان میں متوفی کے پھیپھڑے رکھے جاتے تھے اور انسانی چہرے والا مرتبان اس کے جگر کے لئے مخصوص تھا۔ بعد ازاں ان مرتبانوں میں ایک خاص قسم کا تیل اور کچھ دوسرے کیمیائی اجزا ڈال کر اوپر ڈھکن سے بند کرکے مستقل طور پر سیل کر دیا جاتا تھا۔
پھر غالباً کسی تحقیق کے نتیجے میں انہوں نے یہ راز پا لیا کہ ان اعضا کو جسم سے باہر نکال کر حنوط کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لہذا اب وہ انہیں لاش کے اندر ہی چھوڑ دیتے تھے۔ تاہم اپنی مذہبی روایات اور اعتقاد کے مطابق چاروں خالی مرتبان ممی کے پہلو میں رکھ دیئے جاتے تھے۔
فرعونوں اور صاحبِ ثروت افراد کے لئے تو باقاعدہ پتھر کے تابوت بنتے تھے جن میں حنوط کی گئی لاش کو ایک سے زیادہ دھاتی، نقرئی یا طلائی تابوتوں میں بند کر کے سنگی تابوت میں رکھ کر پتھر کے ڈھکن سے اس کو بند کر دیا جاتا تھا۔ جسے اس کے پہلے سے تیار مقبرے میں رکھ کر چاروں مرتبان ایک خاص ترتیب کے ساتھ تابوت کے سرہانے رکھ دیئے جاتے تھے۔ پھر مقبرے کو وزنی پتھر کی سلوں سے دروازے بند کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیل کر دیا جاتا تھا۔
حنوط شدہ جسم ایک بڑے سے ہال کی دیواروں میں بنائے گئے کبوتر کے کابک کی طرح کے خانوں میں رکھ کر چاروں مرتبان بھی ساتھ رکھ کر اس چھوٹے سے قبر نما خانے کو پتھریلی سلوں سے بند کر دیا جاتا تھا۔ یہ ایک طرح سے ان کا عمومی قبرستان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کھدائی کے دوران ایسے اجتماعی مدفونوں سے ہزاروں کی تعداد میں عام قسم کی ممیاں برآمد ہوئی تھیں۔
بعد میں جب یونانیوں اور رومیوں نے آکر فرعونوں سے یہ علاقہ چھین کر اپنی حکومت قائم کی تو وہ اپنی روایتیں بھی ساتھ لائے تھے۔ حالانکہ وہ بھی قدیم مصریوں کی طرح اپنے مردوں کو حنوط کرتے تھے تاہم انہوں نے ممی بنانے کے اس فن کو مزید نفاست دی۔ وہ ایک خاص اندا ز سے مردے کے جسم پر اس طرح پٹیاں لپیٹتے تھے کہ خوبصورت ڈیزائن بن جاتے تھے۔
تحریر : احمد عالم