واٹر گیٹ سکینڈل جو امریکی صدر نکسن کو لے ڈوبا

Last Updated On 13 May,2019 05:19 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) امریکا کی سیاسی تاریخ میں جس سکینڈل نے عالمی شہرت حاصل کی وہ واٹر گیٹ سکینڈل ہے۔ اس سکینڈل نے 1972ء کے صدارتی انتخابات کے بعد سر اٹھانا شروع کیا۔

1972ء سے 1974ء کے دوران پانچ آدمی واشنگٹن ڈی سی میں واقع ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے دفتر میں گھس گئے۔ بعد میں صدر نکسن کی انتظامیہ کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کسی طرح صدر رچرڈ نکسن کا نام اس سکینڈل میں نہ آئے۔ یہ پانچوں نقب زن پکڑے گئے اور سازش بے نقاب ہو گئی۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے میں چند صحافیوں نے اہم کردار ادا کیا۔

واٹر گیٹ سکینڈل کی تحقیقات امریکی کانگرس نے کیں۔ اسی اثناء میں نکسن انتظامیہ نے ان تحقیقات کی مزاحمت کی جس سے آئینی بحران پیدا ہو گیا۔ اس سکینڈل کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ نکسن انتظامیہ کے اہلکار خفیہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔

ان سرگرمیوں میں سیاسی مخالفین کے دفاتر کی جاسوسی کرنا بھی شامل تھا۔ ان لوگوں کی بھی جاسوسی کی گئی جو نکسن انتظامیہ کے نزدیک مشکوک تھے۔

نکسن اور ان کے قریبی ساتھیوں نے متحرک گروپوں اور سیاسی شخصیات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا اور اس مقصد کیلئے ایف بی آئی، سی آئی اے اور آئی آر ایس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس سکینڈل کی تحقیقات سے یہ بات بھی منظر عام پر آئی کہ نکسن انتظامیہ کے ارکان اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر نکسن کے مواخذے کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا۔ سکینڈل کے نتیجے میں 69 افراد پر فرد جرم بھی عائد کی گئی اور ان میں سے 48 پر جرم ثابت ہوگیا۔ ان میں زیادہ تر نکسن انتظامیہ کے اراکین تھے۔

17 جون 1972ء کو پانچ افراد ڈی این سی ہیڈ کوارٹرز میں نقب لگا کر داخل ہوئے تھے۔ ایف بی آئی نے نقب زنوں سے بھاری رقم برآمد کی۔ اس کے علاوہ نکسن کی سرکاری سطح پر مہم چلانے والی تنظیم سی آر پی سے بھی خطیر رقم برآمد کی گئی۔

جولائی 1973ء میں صدر کے سٹاف کے خلاف مزید ثبوت مل گئے۔ ان میں وہ حلفیہ بیان بھی شامل تھا جو سابق سٹاف ممبرز نے ایک تحقیقات کے دوران دیا تھا۔

یہ تحقیقات سینیٹ واٹر گیٹ کمیٹی نے کی تھیں۔ یہ معاملہ بہت عرصے تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا کہ صدر تمام ٹیپس حکومتی تحقیقاتی اداروں کو جاری کرے۔

ٹیپس سے معلوم ہوا کہ صدر نکسن نے ان تمام سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی جو کہ نقب زنی کے بعد کی گئیں۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کا بھی علم ہوا جو تحقیقات کا رخ موڑنے کے لئے کی گئیں۔

جب صدر نکسن کو یہ یقین ہو گیا کہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ ان کا مواخذہ کرے گا تو انہوں نے 9 اگست 1974ء کو صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

8 ستمبر 1974ء کو صدر جیرالڈ فورڈ نے انہیں معاف کر دیا، جو نکسن کے مستعفی ہونے کے بعد صدر بنے تھے۔ یہ معاملہ تو حل ہو گیا لیکن اس سے حکمران ری پبلکن پارٹی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا۔

1976ء کے صدارتی انتخابات ری پبلکن پارٹی ہار گئی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے جمی کارٹر امریکا کے صدر بن گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نکسن آخری وقت تک اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ وائٹ ہائوس انتظامیہ کا کوئی فرد اس سکینڈل میں ملوث نہیں تھا۔

اسی طرح نکسن کا دفاع کرنے والوں نے بارہا کہا کہ نقب زنی سے نکسن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سکینڈل کو بے نقاب کرنے میں میڈیا نے بہت زبردست کردار ادا کیا۔

خاص طور پر ’’واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز‘‘ نے جن خطوط پر تحقیقات کیں اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس سکینڈل کو جتنا اخبارات نے اچھالا اس سے لوگوں کی دلچسپی اور بھی اس میں بڑھ گئی اور پھر اس کے سیاسی نتائج اور اثرات بھی سامنے آئے۔

واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹرز بوب وڈورڈ اور کارل برنسٹن نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ نقب زنی اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کا تعلق محکمہ انصاف، ایف بی آئی اور سی آئی اے سے ملتا ہے۔

ان رپورٹرز کے خفیہ ذرائع میں ایک شخص شامل تھا جس کا اصل نام کچھ اور تھا لیکن اسے ’’ڈیپ تھروٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کا اصل نام مارک فلیٹ سینئر ہے جو کہ ستر کی دہائی میں ایف بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔

ان ساری باتوں سے یہ چیز سامنے آئی کہ اگر کامل یکسوئی سے کسی بھی سکینڈل کی تحقیقات کی جائیں تو حقائق چھپ نہیں سکتے۔ کامل یکسوئی کے ساتھ دیانت داری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

اس حوالے سے سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی یہ بات یاد آتی ہے کہ اگر آپ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کا عزم کر لیں تو پھر کوئی چیز آپ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واٹر گیٹ سکینڈل آج بھی امریکا کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل مانا جاتا ہے۔

تحریر: طیب رضا عابدی