چندی گڑھ: (ویب ڈیسک) بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں حکام نے 70 سالہ شخص کی کووڈ 19 سے ہلاکت کے بعد تقریباً 40 ہزار افراد کو قرنطینہ میں رکھ دیا ہے۔
حکام نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے اٹلی اور جرمنی کا سفر کرنے کے بعد حکام کی جانب سے از خود قرنطینہ میں رکھے جانے کی ہدایت پر عمل نہیں کیا تھا
حکام کے مطابق انڈیا واپسی کے بعد انھوں نے ہولا محلہ میں ہولی کی چھ روزہ تقریب میں بھی شرکت کی جس میں ہر روز تقریباً 10 ہزار لوگ شریک ہوئے تھے۔
ان کی وفات کے ایک ہفتے بعد ان کے 19 رشتہ داروں میں بھی کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔
سینیئر حکام نے بتایا کہ اب تک ایسے 550 افراد جن کا ان سے براہ راست میل جول رہا ہے ان کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
پولیس نے اس علاقے کے اردگرد موجود 20 کے قریب گاؤں سیل کر دیے ہیں تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
انڈیا میں اب تک صرف 640 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی جن میں سے 30 کا تعلق پنجاب سے ہے تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انڈیا نے اب تک وسیع پیمانے پر لوگوں کو ٹیسٹ نہیں کیا۔
مزید برآں دنیا بھر میں جہاں کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور کارکنوں کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے وہیں بھارت میں فرنٹ لائن سپاہی کہیں حملوں کا شکار ہیں تو کہیں انہیں دھکے دیے جا رہے ہیں۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی فرنٹ لائن کارکنوں کے حوالے سے ملنے والی خبروں پر پریشان ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ طبی عملے سے بدسلوکی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بھارت میں طبی کارکنوں پر حملوں اور اُنہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات پورے ملک سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ رواں ہفتے 21 روزہ ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ان واقعات میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔
ریاست گجرات کے مغربی شہر سورت میں ایک خاتون ڈاکٹر سنجیبانی پنجی گڑھی نے بتایا کہ انہوں نے دن بھر کورونا سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا لیکن جیسے ہی وہ گھر واپس آئیں تو کچھ لوگوں نے ان پر کووڈ 19 پھیلانے کا الزام عائد کر دیا۔
ڈاکٹر سنجیبانی کے مطابق گھر واپسی پر ان کے پڑوسیوں نے ان کے رہائشی اپارٹمنٹ کے باہر ہی انہیں روک لیا اور دھمکی دی کہ اگر انہوں نے کام جاری رکھا تو اس کے اچھے نتائج نہیں ہوں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ طبی کارکنوں کو اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وائرس سے لڑنے والوں کو بھگوان قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنوں کے حوالے سے غلط خبریں اور افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں۔
دریں اثناء جمعے کے روز برطانیہ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 181 مزید ہلاکتیں ہوئیں جس کے بعد مجموعی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 759 ہو گئی ہے۔
ہلاک ہونے والوں کی عمریں 29 سے 98 برس کے درمیان تھیں۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق 82 سے 91 برس کی عمر کے افراد میں چار کے علاوہ باقی سب کو کو پہلے سے کوئی بیماری لاحق تھی۔
برطانیہ دنیا میں کورونا وائرس کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اب تک اٹلی میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جس کے بعد سپین، چین، ایران، فرانس اور امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
اُدھر اٹلی نے 24 گھنٹوں میں 969 مزید اموات کی تصدیق کی ہے جو ایک دن میں ملک ہلاکتوں کی میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس کے ساتھ ملک میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 9134 ہو گئی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک دن میں سامنے آنے والی سب سے زیادہ اموات ہیں۔
مزید برآں امریکا میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 83 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ جو چین اور اٹلی میں رپورٹ ہونے والے تصدیق شدہ کیسز سے بھی زیادہ ہے۔
اس طرح کورونا وائرس کے کیسز کی سب سے زیادہ تعداد امریکا میں ہے۔ امریکا میں اس وبا سے 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکا میں طبی سہولیات کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جبکہ کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے درکار کٹس بھی مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔
امریکا میں کورونا وائرس کا مرکز سمجھے جانے والے شہر نیویارک کے ہسپتال اور کولمبیا یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں ابتدائی طور پر دو مریضوں کے لیے ایک ہی وینٹی لیٹر کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔
امریکا کی ریاستوں نیویارک، نیو اورلینز اور کورونا وائرس سے متاثرہ دیگر ریاستوں میں ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے طبی عملے، سامان اور بستروں کی کمی کا سامنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ سے کورونا وائرس سے متعلق تفصیلاً گفتگو کی ہے۔
ٹوئٹ میں امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ چین اس صورتِ حال سے گزر چکا ہے اور چین نے اس وائرس کے خلاف مضبوط لائحہ عمل اپنایا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بقول اس مہلک وبا کے خلاف امریکہ اور چین اکٹھے کام کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی امریکی ریاست نیویارک کے بعد لوزیانا ہے جہاں وینٹی لیٹرز کی طلب دو گنا بڑھ چکی ہے۔
لوزيانا کے گورنر جان بیل ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ اگر اس مہلک وبا پر قابو نہ پایا گیا تو اگلے ماہ دو اپریل تک ریاست میں وینٹی لیٹرز اور سات اپریل تک ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر ختم ہوجائیں گے۔
لوزیانا میں اوشنر ہیلتھ سسٹم کے چیف ایگزیکٹو وارنر تھامس کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں قائم انتہائی نگہداشت وارڈز میں 80 فی صد مریض اس وقت وینٹی لیٹرز پر ہیں۔
امریکی ہسپتالوں میں کام کرنے والی نرسز کی تنظیم نیشنل نرسز یونائیٹڈ کی سربراہ بونی کیسٹیلو کا کہنا ہے کہ ہماری نرسز کے پاس کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے درکار طبی سامان کا فقدان ہے۔
رائٹرز کے مطابق امریکا میں طبی سامان کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طبی عملہ اپنی حفاظت کے لیے اب پرانے فیس ماسکس اور کوڑے کے لیے استعمال ہونے والے بیگز استعمال کر رہا ہے۔