باکو: (ویب ڈیسک) آرمینیائی قبضے سے نگورنو کاراباخ کا علاقہ حاصل کرنے پر آزری عوام جشن منانے سڑکوں پر نکل آئی اور جشن منایا۔ نوجوانوں نے ترکی اورپاکستان کے پرچم لہراکر رقص کیا دوسری طرف آرمینیائی مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سپیکر کو شدید زدو کوب کیا جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے۔
صدر الہام علیوف کے قوم سے خطاب کے بعد لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر امڈ آیا اور انہوں نے آذری اور ترک پرچموں کے تلے خوشی میں نعرے بازی کی ۔ اس موقع پر عوام نے سڑکوں پر روایتی رقص کیے اور لوک گیت گائے۔
آذری عوام نے قاراباغ ہمارا تھا اور ہمارا ہے کے نعرے لگائے اور چلتے ہوئے مرحوم صدر حیدر علی ایف کے مزار تک پہنچے۔
علیوف نے مزید کہا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم انہیں نکال باہر کریں گے، ہم نے ایسا کر دکھایا۔
دوسری طرف ترک صدر رجب طیب اردوان نے پہاڑی نگورنو کاراباخ کی فتح پر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کو مبارکباد پیش کی ہے۔
آذربائیجان صدارتی دفتر کی طرف سےجاری کئے گئے بیان کے مطابق ترک صدر اردوان اور آذری صدر علیوف کے درمیان ورچوئل ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں درخشاں فتح پر سربراہان نے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی ہے۔
جنگ کے دنوں میں آذربائیجان کے ساتھ سیاسی و معنوی تعاون کی وجہ سے علیوی نے اردوان اور ترک عوام کا ایک دفعہ پھر شکریہ ادا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی کا نیا معاہدہ طے پا گیا
ترک صدر نے بھی آذربائیجان میں ترکی کے تعاون کی بھر پور پذیرائی پر علیوف کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سربراہان نے اعادہ کیا کہ برادر ملک ترکی اور آذربائیجان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔
سربراہان نے فائر بندی کی مانیٹرنگ کے لئے متوقع ترک۔روس امن فورس مرکز کے بارے میں بھی بات کی اور کہا ہے کہ یہ فورس علاقے میں پائیدار امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرے گی۔
یاد رہے کہ ارمینیا اور آذربائیجان نے روس کے ساتھ معاہدے کے تحت آذربائیجان کے ناگورنو-کاراباخ خطے کے خلاف لڑائی روکنے کے لیے معاہدے کا اعلان کردیا جس میں تقریبا 2 ہزار روسی امن کی رکھوالے فوجیوں کی تعیناتی اور علاقوں سے قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ناگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے اختتام کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔
اس کے بعد سے متعدد جھڑپ ہوچکی ہیں تاہم پر زور لڑائی کا آغاز رواں سال 27 ستمبر کو ہوا تھا۔ اس عرصے کے دوران متعدد جنگ بندیوں کا مطالبہ کیا جاچکا ہے تاہم فوری طور پر اس کی خلاف ورزی بھی دیکھی گئی تھی گئی تھی تاہم اب اعلان کردہ معاہدے پر عمل کا امکان زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ آذربائیجان اہم شہر شوشی کا کنٹرول سنبھالنے سمیت اہم پیشرفت کرچکا ہے۔
آرمینیائی وزیر اعظم نیکول پاشینی نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ لڑائی کا خاتمہ کرنا میرے لیے ذاتی طور پر اور ہمارے لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آذر بائیجان نے روس کا جنگی ہیلی کاپٹر مار گرایا، دو افراد ہلاک
اس اعلان کے فوراً بعد ہی ہزاروں افراد اس معاہدے کے خلاف آرمینیائی دارالحکومت یریوان کے مرکزی چوک پر پہنچے اور کئی چیخ چیخ کر کہتے سنائی دیے کہ ’ہم اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے!‘۔اسی دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سپیکر کو شدید زدو کوب کیا جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے۔
ان میں سے کچھ لوگوں نے مرکزی سرکاری عمارت میں گھس کر یہ کہا کہ وہ وزیر اعظم کی تلاش کر رہے ہیں جو بظاہر پہلے ہی روانہ ہوچکے تھے۔ اس معاہدے میں آرمینیائی فوج سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اگرم کے مشرقی ضلع سمیت ناگورنو-کاراباخ کی سرحدوں کے باہر واقع کچھ علاقوں کا کنٹرول چھوڑ دیں۔ یہ علاقہ آذربائیجان کے لیے بھاری علامتی وزن رکھتا ہے۔
آرمینیا بھی لاچین کے خطے سے باہر آجائے گا جہاں ناگورنو کاراباخ سے ارمینیا جانے کے لیے مرکزی سڑک قائم ہے۔ اس معاہدے میں نام نہاد سڑک لاچین کوریڈور کو کھلا رکھنے اور روس کے امن کے رکھوالوں کے زیر تحفظ رکھنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان تمام ایک ہزار 960 روسی امن کے رکھوالوں کو خطے میں 5 سال کے مینڈیٹ کے ساتھ تعینات کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں آذربائیجان کے مغربی علاقے نخسیوان سے ارمینیا سے ٹرانسپورٹ روابط قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جس کے ارد گرد ارمینیا، ایران اور ترکی شامل ہیں۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان میدان جنگ بننے والے علاقے ناگورنو کاراباخ کی سرحد پر ایران اپنی فوج تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر میزائل بیٹریاں نصب کر دی ہیں۔