کیپ ٹاؤن: (ویب ڈیسک) جنوبی افریقا میں مسلمان علماء کی ایک ٹیم پچھلے 3 سالوں سے کیپ ٹاؤن کے کئی علاقوں میں منشیات سمگلروں کی گینگ وار اور منشیات سے چھٹکارے اور امن لانے کے مشن پر ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’ بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق اکثر جمعرات کی شام یہ سکالرز کھلی فضا میں عبادت کے لیے کیپ ٹاؤن کے گینگ لینڈ جاتے ہیں۔ افریقا میں اس عبادت کو ’ذکر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عبادت کے دوران خدا کے نام اور اس کے اوصاف کا بار بار بلند آواز میں ذکر کیا جاتا ہے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں ڈیڑھ گھنٹے کی عبادت کے دوران کوئی بھی لڑائی نہیں ہوئی۔ عام طور پر 100 سے 400 افراد اس ذکر میں شرکت کرتے ہیں۔ ایک عبادت صرف صنف پر مبنی تشدد سے لڑنے کے لیے وقف تھی جو جنوبی افریقا میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اس عبادت میں تقریباً دو ہزار افراد شریک تھے۔
منتظم شیخ محمد سالیگ اسحاق کا کہنا ہے کہ یہ اہم نہیں ہے کہ اس میں کتنے افراد شریک ہوئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تین سالوں سے ہر قسم کے حالات میں ہم ذکر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مینن برگ کحپ ٹاؤن میں ایک بستی ہے جسے 1960 کی دہائی میں کم آمدنی والے افراد کیلئے حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا، یہ ملک میں مخلوط نسل کے افراد کے لیے سرکاری اصطلاح ہے۔ اُس وقت کی سفید فام اقلیتی والی حکومت نے زبردستی فرقوں کی بنیاد پر نسلوں کو الگ الگ کر دیا تھا، جس سے سفید فام لوگوں کو شہروں کے متمول علاقوں میں رہنے کا موقع مل گیا۔
بی بی سی کے مطابق اس بستی میں ایک اندازے کے مطابق 52000 سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں، جو بنیادی طور پر مسیحی ہیں۔ یہاں بے روزگاری، غربت، جرائم اور گینگ وارز عروج پر ہیں۔
حالانکہ ’ذکر‘ سے کچھ گھنٹے قبل ان فلیٹوں پر فائرنگ کی گئی تھی اور ہفتے کے آخر میں گینگ لینڈ میں فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم مینن برگ میں گینگز کے مابین شدید لڑائی کے بعد فی الحال جنگ بندی جاری ہے۔
’ذکر‘ کے منتظمین کو لگتا ہے کہ کبھی بھی تشدد کا خاتمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تک حکومت نے اس سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب کوشش نہیں کی ہے۔
شیخ اسحاق کے نزدیک کمیونٹی کے مختلف مذہبی رہنماؤں کو شامل کرنا ایک اچھی شروعات ہوگی، جرائم کی کوئی حد نہیں ہے اور نہ ہی وہ مذہب میں فرق کرتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ حکام کو اس بستی میں زیادہ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور یہاں مزید فلیٹ بنانے کے بجائے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے میں مدد کرنی چاہیے اور بستی میں سکیورٹی فورسز کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا چاہیے۔
دنیا میں مسلمان مختلف انداز میں خدا کا ذکر کرتے ہیں اور علاقے کے حساب سے تلاوت کے لیے ان کا ایک خاص انداز ہوتا ہے۔ مسلمان یہ ’ذکر‘ غروب آفتاب کے بعد اور عشا کی نماز سے قبل کرتے ہیں۔ مخلوط ایشین نسلوں کی کمیونٹی کیپ ملائیشیا، جو نسل در نسل سے جنوبی افریقا میں آباد ہیں، ’ذکر‘ کے لیے ان کا اپنا الگ ہی انداز ہے۔
بستی میں رہنے والے کچھ عیسائی بھی اس ’ذکر‘ میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے قریبی اپارٹمنٹس سے اس عبادت کو دیکھتے ہیں۔
مینن برگ میں ’ذکر‘ سیشن کے بانیوں میں سے ایک شیخ سمیگ نور الدین عقیدت مندوں کے لیے کھانا تیار کر رہے ہیں۔ کیپ ٹاؤن میں ’ذکر‘ کی محفل میں شرکت کرنے والوں کو کیک یا کھانے میں کچھ میٹھا دیا جاتا ہے - دنیا بھر کے اکثر علاقوں کی طرح وہاں بھی اس کھانے کو ’نیاز‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
چونکہ مینن برگ میں رہنے والے اکثر افراد کا تعلق غریب طبقہ سے ہے، لہذا عقیدت مندوں کو ’ذکر‘ کے بعد گرم گرم کھانا بھی دیا جاتا ہے۔
2015 کے وسط میں حکام نے منین برگ کو ’خطرے کا ریڈ زون‘ قرار دے دیا تھا اور متعدد مہینوں تک ایمبولینسیں اس وقت تک اس علاقے میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں جب تک کہ پولیس کی مدد نہ لی جائے۔
تاہم شیخ اسحاق کا کہنا ہے کہ اب اکثر اس علاقے کے غنڈے عبادت کے آغاز سے قبل چٹائیاں وغیرہ بچھانے میں مسلمان سکالرز کی مدد کرتے ہیں۔ 2018 اور 2019ء کے درمیانی عرصے میں ’ذکر‘ پروگراموں کے باعث مانین برگ میں جرائم کم ہو گئے تھے۔ منتظمین کو کمیونٹی میں ان کے کردار کے لیے مانین برگ پولیس کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ منتظمین کا قلیل مدتی مقصد بستی میں امن اور سکون لانا ہے۔
ان کا طویل مدتی مقصد یہ ہے کہ متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے بستی کو منشیات اور غنڈہ گردی سے نجات دلائی جائے۔
بچوں کو منشیات کے اثرات کے بارے میں متنبہ کیا جاتا ہے اور انھیں اس امید پر ’ذکر‘ سیشن میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ غنڈوں اور منشیات فروشوں کا شکار نہ ہوں۔
عیسائی برادری کی جانب سے ان ’ذکر‘ سیشنز کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور منتظمین کو امید ہے کہ وہ مسلمانوں کو پرسکون اور عدم تشدد والی برادری کے طور پر پیش کر سکیں گے۔
ہر جمعرات کو ایک خصوصی شخص یا سکالر کو تقریر کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہاں شیخ حسن پانڈے، کسی بھی انسان کی زندگی میں اس کی ماں کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مہمان مقررین عوام کے سامنے کھلی فضا میں تقریر کرتے ہیں، لہذا ان کے پیغامات میں صنفی مساوات سے لے کر منشیات کے استعمال تک موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے اور ہر برادری کے افراد اس پیغام کو سن سکتے ہیں۔
منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان سیشنز میں بطور مہمان سپیکر ایک مسیحی پادری کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
شیخ اسحاق کا کہنا تھا کہ اس ’ذکر‘ نے مینن برگ میں سکون کی فضا قائم کی ہے۔ ہم یہ سیشن ایک ہفتے میں صرف ایک بار کرتے ہیں۔ اگر ہم ہر روز ان پروگراموں کی میزبانی کر سکتے تو اس کا زبردست اثر پڑتا، لیکن کم وسائل کی بنا پر ہم ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔