ماسکو: ( ویب ڈیسک) روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ یوکرین تنازع کے حل کے لیے چین کی تجاویز کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور چینی صدر شی جن پنگ کے ماسکو کے دورے کے دوران 12 نکاتی چینی منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
خیال رہے کہ چین نے گزشتہ ماہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ایک منصوبہ جاری کیا تھا ، جس میں دشمنی ختم کرکے امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز شامل ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے مطابق چینی صدر شی جن پنگ گزشتہ روز اپنے تین روزہ دورے پر ماسکو پہنچے جہاں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے انکا پرتپاک استقبال کیا اور مغرب کو یہ پیغام دیا کہ یوکرین جنگ پر ماسکو کو تنہا کرنے کی ان کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان تقریباً ساڑھے چار گھنٹے تک ملاقات ہوئی جس کے دوران پیوٹن نے شی کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور مزید مضبوط تعلقات استوار کرنے کی امید ظاہر کی جبکہ چینی صدر نے روسی ہم منصب کی تعریف کی اور پیش گوئی کی کہ روس کے عوام انہیں اگلے سال دوبارہ منتخب کریں گے۔
ماسکو میں انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز کے ڈائریکٹر سرگئی مارکوف نے عرب خبر رساں ایجنسی الجزیرہ کو بتایا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کا بنیادی ایجنڈا یوکرین جنگ نہیں بلکہ معاشی تعلقات کے لیے بنیادی ڈھانچہ قائم کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ روس اور چین کو امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے عائد پابندیوں کے اثر و رسوخ کے بغیر ایک عالمی انفراسٹرکچر، ایک نیا تجارتی تعلق بنانا ہوگا۔
مارکوف سے جب جنگ کے بارے میں دونوں رہنماؤں کے خیالات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ شی اور پیوٹن دونوں یوکرین کے صدر زیلنسکی کو یوکرینی رہنما کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ انہیں امریکا کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔
دریں اثنا، واشنگٹن نے شی کے دورے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ ماسکو کو مزید جرائم کرنے کے لیے سفارتی کور فراہم کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ چینی صدر کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پیوٹن پر یوکرین سے فوجیں نکالنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔