لندن: (روزنامہ دنیا) کووڈ- 19 کے مریض کے ایک چائے کے چمچ جتنے لعاب میں آدھ ٹرلین وائرس موجود ہو سکتے ہیں۔ کھانسی اس مقدار کو ہوا میں منتقل کر دیتی ہے۔ آپ کے دوست نے گھر داخل ہوتے ہوئے ایک سانس بھرا اور 32 ہزار وائرس ذرات ان کے منہ اور گلے میں جا بیٹھے۔ اس وقت سے یہ وائرس اس کے جسم کے اندر اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ جب وہ آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے تو اس کے گلے سے نکلی بلغم کی وائرس سے بھری چھوٹی بوندیں آپ کے ناک کے راستے آپ کے گلے میں آ بیٹھتی ہیں۔ جب تک آپ دوست کو خدا حافظ کہیں گے اس وقت تک آپ 43 ہزار سے زائد وائرس ذرات کے مالک بن چکے ہوں گے۔
اگر ہاتھ ملا لیا تو یہ تعداد تین لاکھ کی حد کو عبور کر چکی ہوگی۔ ان بوندوں میں سے ایک آپ کے پھیپھڑے میں پہنچ جاتی ہے اور اس کی گرم گیلی سطح پر براجمان ہو کر وائرس کو ٹشو کے گرد بلغم تک پہنچا دیتی ہے۔ ہر ذرہ گول ہے اور بہت چھوٹا ہے۔ اگر آپ انسانی بال کو ایک فٹ بال کے میدان جتنا بڑا تصور کریں تو اس میں وائرس محض چار انچ کا ہو گا۔ وائرس کی بیرونی جھلی ایک تیل کی پرت پر مشتمل ہے جس میں کنگری دار پروٹین مالیکیول ہیں جنہیں سپائیک پروٹین کہا جاتا ہے۔ یہ کورونا کی بنائی گئی تصویر کی طرح کسی گیند پر لگے اینٹنا لگتے ہیں۔
اس وائرس کے درمیان آر این اے ، وائرس کا جینیاتی مواد ہوتا ہے یعنی اصلی بم۔ جیسے جیسے وائرس پھیپھڑے کی بلغم میں سے گزرتا ہے تو اس کی سطح پر ایک خلیے سے ٹکراتا ہے۔ یہ خلیہ وائرس سے بڑا ہوتا ہے۔ فٹ بال کے میدان کے اعتبار سے 26 مربع فٹ۔ اربوں سال کے ارتقا نے اسے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ لیکن اس کی ایک کمزوری بھی ہے۔ اس کی سطح سے اینجیوٹینسن نامی پروٹین نکلا ہوا ہوتا ہے جو اینزائم 2 یا ایس 2 ریسیپٹر کو کور کرتا ہے۔ عموماً یہ مالیکیول جسم میں ہارمونز کی سرگرمی کو چلاتے ہیں۔ آج یہ کورونا وائرس کیلئے لنگر کا کام کرے گا۔
وائرس خلیے سے چپک جاتا ہے۔ وائرس کی جھلی پھر سیل کی جھلی کیساتھ مل جاتی ہے اور آر این اے کے مواد کو پھیپھڑوں کے سیل میں داخل کر دیتی ہے۔ وائرس اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ اب وائرس کا آر این اے مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ آر این اے نئے میزبان خلیے پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اس طرح ایک ایک کر کے ہر خلیے میں یہ گھس کر اسے ہائی جیک کر لیتا ہے۔ اس اندازے سے کہ یہ وائرس اپنے رشتہ دار سارس کی طرح رویہ دکھاتا ہے، یہ انفیکشن ایک دن لیتا ہے اور اس وائرس کو لاکھوں کی تعداد میں پھیلا دیتا ہے۔ وائرس کے ذرے بلغم میں آ جاتے ہیں، خون میں داخل ہوتے ہیں اور نظام ہضم تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کو اس دوران کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔
دراصل آپ ابھی بھی معمول کے مطابق محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی شکایت ہے تو وہ بور ہونے کی ہے۔ آپ ایک اچھے شہری ہیں اور سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل کرتے ہوئے گھر پر رہ رہے ہوتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ گھر سے نہ نکلے تو ذہنی امراض کا شکار ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور دوست کو فون کرتے ہیں اور وہ آپ سے واک پر ملنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ آپ اس سے ملتے ہیں اور ہاتھ تو نہیں ملاتے لیکن اس کی جیکٹ پر ہاتھ رکھتے ہیں، اس پر آپ تقریباً نو لاکھ وائرس کے ذرات چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ واپس گھر لوٹتا ہے جیکٹ ہینگر پر لٹکاتا ہے اور ہاتھ دھونے سے قبل اپنے ناک کے نیچے خارش کرتا ہے۔ پانچ دن میں اسے ایک ایمبولینس قریبی ہسپتال لے جاتی ہے۔ گھر پر آپ کے خون میں خلیوں کی موجودگی کو بھانپتے ہوئے آپ کا مدافعتی نظام کچھ گڑبڑ محسوس کرتا ہے۔ خون کے سفید خلیے مردہ خلیوں کے ذرات دیکھتے ہی سائٹوکائن نامی کیمیائی مواد چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ الارم ہوتا ہے جس کو محسوس کر کے جسم کے دیگر مدافعتی حصے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ آپ کے جسم میں ایک جنگ چھڑ جاتی ہے۔ آپ کا مدافعتی نظام دشمن پر حملہ کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے جنگ چلتی ہے ویسے ویسے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے اور متاثرہ حصے میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔
دو روز بعد کھانے کے خیال سے ہی آپ کو متلی آنے لگتی ہے۔ آپ گھنٹوں سو جاتے ہیں۔ جب آپ اٹھتے ہیں تو آپ اپنی طبیعت زیادہ خراب محسوس کرتے ہیں۔ آپ کا سینہ سخت ہو جاتا ہے اور آپ کو نہ بند ہونیوالی خشک کھانسی ہونے لگتی ہے۔ آپ تھرمامیٹر لگاتے ہیں اور ایک منٹ بعد آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ٹمپریچر 102 ہے۔ آپ واپس بستر میں یہ کہتے ہوئے لیٹ جاتے ہیں کہ یہ معمول کا فلو ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ تو نوجوان ہیں لہٰذا خطرے والوں میں آپ نہیں آتے۔
آپ ایک حد تک درست سمجھ رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ اکثر افراد بس یہیں تک جاتے ہیں۔ آرام سے وہ بہتر ہو جاتے ہیں لیکن بعض ایسی وجوہات سے جن کی سائنس دانوں کو سمجھ نہیں آتی 20 فیصد افراد کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ آپ کی نوجوانی کے باوجود وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ چار دن کے تیز بخار اور دکھتے جسم کے بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کبھی اتنے بیمار نہیں ہوئے۔ آپ کی کھانسی آپ کو اتنا شدید دھچکا دیتی ہے کہ آپ کی کمر دکھ جاتی ہے۔ آپ گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور قریبی ہسپتال کی ایمرجنسی پہنچ جاتے ہیں۔ (آپ 37 کروڑ سے زائد وائرس کے ذرات فضا اور گاڑی میں چھوڑ دیتے ہیں۔)
ہسپتال میں آپ کا جائزہ لیا جاتا ہے اور آپ کو آئیسولیشن وارڈ روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کے کورونا ٹیسٹ کے نتائج کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے پھیپھڑوں کا سی ٹی سکین کرتے ہیں اور سب دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کو نہ صرف کووڈ- 19 ہے بلکہ یہ سبب بنتا ہے زیادہ سنگین نمونیا کا جسے ایکیوٹ رسپائریٹری ڈسٹریس سینڈروم یا اے آر ڈی ایس کا نام دیتے ہیں۔