اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان کورونا لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کا فیصلہ آج کرے گا، پروگرام ‘‘دنیا کامران خان کے ساتھ ’’ کے میزبان کامران خان نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن ہی اس صورتحال کا علاج ہے لیکن ہر 25 لاکھ پاکستانیوں میں 60 افراد کورونا سے متاثرہ ہیں اور ایک انتقال ہے، الحمد اللہ پاکستان دنیا کی کم ترین شرح اموات والے ممالک میں شامل ہے، چین، ایران حتی کہ سپین، اٹلی اور ڈنمارک و دیگر ممالک بھی کھلنا شروع ہو گئے ہیں، ان ممالک میں تو کورونا کے حوالے سے بہت بری صورتحال ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے تحفظات کا اظہار کیا، وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہم مزید سوچ بچار کرنا چاہتے ہیں، سندھ حکومت فعال کردار ادا نہیں کر پا رہی۔
وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم نے مشکل حالات میں سخت فیصلے کیے، شہریوں کے تحفظ کیلئے بہتر اقدامات کر رہے ہیں، وفاق سے سندھ حکومت کی کارکردگی برداشت نہیں ہو رہی، ہم سیاسی ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے، سیاسی قیادت کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، تمام ممالک کی ایکسپورٹ بند پڑی ہے، یہ لوگ کس ایکسپورٹ کی بات کر رہے ہیں، ہم خوشی سے صوبے میں لاک ڈاؤن نہیں کر رہے، ہم بھی چاہتے ہیں حالات معمول پر آئیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ملک میں کیے گئے اقدامات پر سپریم کورٹ کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس سے حکومت تشویش کا شکار ہو گئی۔ اس حوالے سے سینئر قانون دان علی ظفر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملے کو دیکھا، اس میں ایک بات یہ ہے کہ عدالت کی آبزرویشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، جوڈیشری اور ایگزیکٹو کے الگ الگ اختیارات ہیں، حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو خوش اسلوبی سے کرے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ آبزرویشن تک رکھتی ہے یا پھر اسے آرڈر کی صورت میں لے آئے گی، اگر سپریم کو رٹ آر ڈر دیتی ہے تو پھر اس پر چیک بھی رکھے گی۔
آئی پی پیز کی اندھا دھند منافع خوری کے حوالے سے رپورٹ آئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توانائی سیکٹر نے اندھا دھند منافع کمایا، اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی عابد قیوم سلہری نے کہا کہ جس طرح آٹا، چینی بحران کے حوالے سے علم تھا اسی طرح پاور سیکٹر کے منافعوں کے بارے میں بھی سب کو علم ہے لیکن انکوائری کمیشن میں کنفرم ہو جائے گا، مختلف پاور پوائنٹس کی قیمتوں کا تعین نہیں، رپورٹ آتی ہے تو ان کمپنیوں کے منافعوں کا پتا چل جائے گا کہ یہ کس طرح ہمیں لوٹ رہی ہیں، اگر یہ عالمی فورمز پر بھی جاتی ہیں تو پاکستان کا کیس مضبوط ہوگا، پاکستان کو فائدہ ہوگا۔