اسلام آباد: (دنیا نیوز) قومی اسمبلی نے ریاست مخالف بیان دینے پر چیئر مین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تجویز دے دی۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ایٹمی پروگرام اور پاک فوج سے متعلق انٹرویو کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی۔ وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف قرار داد پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ پاک فوج کی دفاع کے لیے ناقابل تسخیر خدمات ہیں، یہ ایوان پی ٹی آئی کے چیئرمین کے انٹرویو اور الفاظ کی شدید مذمت کرتا ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نے کہا اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو پاکستان 3 ٹکڑے ہوجائے گا، یہ ایوان عمران نیازی کے بیان کی مذمت کرتا ہے۔
قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دیں، یہ ایوان انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ریاست سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔
اس دوران سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، عمران خان کا اقتدار کیا گیا یہ ہر روز نئی بات کرتے ہیں۔ معلوم نہیں عمران خان نے دنیا میں کس کس کو راز دے دیے ہوں گے، لگتا ہے جو پاکستان کے خلاف نقشے بنائے گئے اس میں بھی یہ شامل تھے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے 3 ٹکڑوں کی بات کرکے اس کی تائید کی ہے، ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور اسے تکمیل تک نواز شریف نے پہنچایا۔
نور عالم خان
رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر آرٹیکل 6 لگانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آرٹیکل 6 نہیں لگائیں گے تو فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف آواز اٹھتی رہے گی۔ آئین کو جو پامال کرے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اگر کسی نے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو اس پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔
سیّد خورشید شاہ
خورشید شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے پی ٹی آئی دور میں مسلسل جیل میں ڈالا گیا مگر میں نے عمران خان کے حوالے سے کبھی بات نہیں کی۔ یہ شخص اب سیاسی مارچ کو ختم کرکے نام صلح حدیبیہ کا دیتا ہے، کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی، یہ کیسے صلح حدیبیہ کا موازنہ کرسکتا ہے۔ جب اس طرح کے لوگ ایسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرینگے تو پھر توہین جیسے واقعات ہوتے ہیں، عمران کے خلاف صلح حدیبیہ کا نام استعمال کرنے کے خلاف بھی قرارداد آنی چاہیے۔
غوث بخش مہر
غوث بخش نے کا کہا کہ اگر ایسی قرارداد لانی ہے تو پھر پرانے بھی سارے بیانات نکال لیں اور جس جس نے فوج اور عدلیہ کے خلاف جو جو بات کہی، سب کے خلاف قرارداد لائیں۔
سائرہ بانو
سائرہ بانو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایک شخص کی مذمت کرنے سے پہلے ان سب کی مذمت کریں جو فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں، اگر اجازت دیں تو ان کی جانب سے فوج کے خلاف کی گئی باتوں کو کل مائیک پر سنادوں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سب کو عمرانوفوبیا ہوگیا ہے، سائرہ بانو نے واضح کیا کہ ہم یہاں عمران کا دفاع کرنے نہیں بیٹھے مگر یہاں پیٹرول بم کی بات کیوں نہیں کی جارہی سب کی خاموشی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے پیٹرول پر ساٹھ روہے نہیں ساٹھ پیسے بڑھے ہوں۔
ترجمان بی جے پی کی نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان کی پر زور مذمت
دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے بی جے پی کی ترجمان نورپورشرما کے خاتم النبین حضرت محمّد ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان کی پر زور مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت قرار دیا ہے۔اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اپنے علیحدہ علیحدہ مذمتی بیانات میں کہا کہ حضرت محمّد ﷺکو پوری انسانیت کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور آپ ﷺنے اپنی تعلیمات کے ذریعے دنیا میں امن ، سلامتی اور انسانیت سے محبت کے پیغام کو اجاگر کیا ۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ترجمان نور پور شرما کے حضرت محمّد ﷺکے بارے میں گستاخانہ بیان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات اور احساسات بری طرح مجروح ہوے ہیں اور اس کے خلاف دنیا بھر مسلمانوں میں اشتعال اور انتہائی غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی مذہب بھی مذہبی شخصیات کے بارے میں اس طرح کے گستاخانہ بیانات کی اجازت نہیں دیتا ۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ترجمان کا بیان بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی عکاسی ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی کی فاشسٹ حکومت بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک سیاہ دور ہے اور ان پر ظلم و مصائب کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔انہوں نےپورے عالم اسلام کو اس شرم ناک بیان کے خلاف متحد ہونے اور بھرپور آواز اٹھانے کا کہا۔انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بی جے پی کی ترجمان کے حالیہ بیان اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کا سختی سے نوٹس لینے کا بھی کہا۔
قومی اسمبلی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺاتھارٹی بل 2022ء کی منظوری دے دی
قومی اسمبلی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کی منظوری دے دی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی بل 2022ء پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے میں آج تک کی تاخیر پر صرف نظر کرنے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری کے بعد مرتضیٰ جاوید عباسی نے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے تحریک پیش کی کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ تحریک کی منظوری کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے بل کی ایوان سے شق وار منظوری حاصل کی۔
بل میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی پیرزادہ سید عمران احمد شاہ ، شاہدہ اختر علی ، شازیہ اسلم ثوبیہ اور انجینئر صابر حسین قائمخانی نے ترامیم پیش کیں جنہیں ایوان کی منظوری کے بعد بل میں شامل کرلیا گیا۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے تحریک پیش کی کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء منظور کیا جائے، قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے بل کی منظوری دے دی۔
واضح رہے کہ قومی رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کے نام کو رحمت اللعالمین و خاتم النبیینﷺ اتھارٹی بل 2022ء کرنے کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کی رکن شاہدہ اختر علی نے ترمیم پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس طرح بل کا نام رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی بل 2022ء کردیا گیا۔ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کا دائرہ کار پورے پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا اور یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔ اس بل کے تحت اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ وزیراعظم ہونگے اور اس کے ارکان کی تعداد 6 ہوگی جن کا تقرر وزیراعظم کریں گے۔
اتھارٹی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی بورت تشکیل دیا جائے گا تاکہ وہ سرپرست اعلیٰ کو مشاورت اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔ مشاورتی بورڈ ایسے دس ارکان پر مشتمل ہوگا جو عالمی شہرت اور بے عیب ساکھ کے حامل ہوں گے۔ مشاورتی بورڈ کے ارکان کا تقرر بھی وزیراعظم بطور سرپرست اعلیٰ کریں گے۔ مشاورتی بورڈ کم از کم سہ ماہی بنیاد پر ایک بار اجلاس منعقد کرے گا۔ اتھارٹی کے چیئرپرسن کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے کیا جائے گا اور ایسے شخص کو بطور چیئرمین لگایا جائے گا جو ممتاز عالمی شہرت اور لیاقت کا حامل ہوگا اور وہ سیرت طیبہ کے معاملات اور ادب کے تقاضوں سے کماحقہ واقف ہوگا۔
دینی امور اور تحقیق میں تجربے کا حامل ہوگا۔ چیئرپرسن کے عہدے کی مدت تین سال تک کی ہوگی جو اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ (وزیراعظم) کی مرضی اور منشا کے مطابق قابل توسیع ہوگی تاہم چیئرپرسن وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مستعفی ہو سکے گا۔ اتھارٹی کے اختیارات اور کارہائے منصبی کے مطابق قوم کی کردار سازی کے ذریعے انصاف، قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کی بنیاد پر ریاست مدینہ کے تصور کو حقیقی بنانا، حضورﷺ کی عملی زندگی سے سماجی ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات اور اقدار کی نشاندہی کرنا اور انہیں بڑے پیمانے پر معاشرے اور افراد کی زندگی میں شامل کرنا، حضورﷺ کی زندگی کے کلیدی جزو کو فروغ دینے اور تشہیر کرنے کے لئے پالیسیاں، حکمت عملیاں اور وسیلے بنانا اس میں امن، ہمدردی، دوسروں کا خیال رکھنا، رواداری، علم، ترقی، حکمت، صبر، قناعت، اخلاقی رویہ، سماجی اثر، ماحولیاتی تحفظ اور سیرت کے دیگر نمایاں پہلو شامل ہیں۔ نوجوان نسل کی رہنمائی کرنے کے لئے حضرت محمدﷺ کی سیرت اور حدیث پر تحقیقی مطالعات کا انعقاد کرنا بھی رحمت اللعالمین و خاتم النبیین ﷺاتھارٹی کی ذمہ داری ہوگی۔ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر نوجوان نسل کی بہتر شخصیت کی نشوونما کے لئے تعلیمی اور سیکھنے کے عمل کو فروغ دینا، پوری دنیا سے سیرت پر بین الاقوامی ادب اور تحقیق کا جائزہ لینا، اسے قابل رسائی، قابل ترجمہ اور دور حاضر سے متعلقہ بنانا، سیرت النبیﷺ کی نسبت سے کانفرنسز، نشر و اشاعت کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے صوبائی تعلیمی محکموں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ کو نئی نسل تک پہنچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات بھی اتھارٹی کے فرائض میں شامل ہوں گے۔
بی جے پی کے ترجمان اور رہنمائوں کی ہرزہ سرائی کی قومی اسمبلی میں مذمت
قومی اسمبلی نے بھارت میں بی جے پی کے ترجمان اور رہنمائوں کی جانب سے ہرزہ سرائی اور توہین آمیز الفاظ پر مشتمل بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ قرارداد میں بین الاقوامی برادری سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ ہندو توا نظریے کے تحت پرتشدد کارروائی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی نے اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی اجازت چاہی، اجازت ملنے پر انہوں نے ایوان میں قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور رہنمائوں کی جانب سے ہرزہ سرائی اور توہین آمیز بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، ان بیانات سے مسلم امہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، عالم اسلام اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان نبی کریم خاتم النبیینﷺ ۖ سے محبت کرتے ہیں اور قرآن کے حکم کے مطابق مومنوں کے لئے نبی کریمﷺۖ کی محبت، ان کے بچوں اور ماں باپ سے اولیت رکھتی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ توہین آمیز ریمارکس سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے، ایوان بھارتی رہنمائوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور توہین آمیز بیانات دینے والے رہنمائوں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
قرارداد کے متن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کے توہین آمیز ریمارکس پر مبنی واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ قرارداد میں بین الاقوامی برادری سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ایوان نے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔