اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ اقتصادی اور تکنیکی ترقی کے لئے پاکستان کو چین سے سیکھنا چاہئے، پاکستان اورچین کے ماہرین اورعملہ نے سی پیک کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
چینی سفارت خانہ میں 2022 میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے نمایاں پاکستانی عملہ کو ایوارڈ دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں پرامن ماحول کا قیام ضروری ہے جو ہر صورت ہونا چاہیے، ہمیں سب سے پہلے سیاسی استحکام، پالیسیوں کے تسلسل اور سماجی یکجہتی کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ تنازعات اور پولرائزیشن کے ماحول میں معاشی ترقی نہیں ہوتی۔
احسن اقبال نے کہا کہ پہلے سب سمجھتے تھے کہ سی پیک ایک ناممکن مشن ہے لیکن پاکستان اور چین کے ماہرین اور عملہ نے اس ناممکن کو ممکن بنایا جو لائق تحسین ہے، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات اور دیرینہ دوستی پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیرنے کہا کہ عالمی معاملات میں ہونے والی تبدیلیوں سے تعلقات میں بھی تبدیلی آتی ہے، ورلڈ آرڈر ممالک کو اکٹھا کرتے ہیں اور جب ورلڈ آرڈر بدلتے ہیں تو ملکوں کی دوستیاں بھی متاثرہوتی ہیں، تاہم پاکستان اور چین کی دوستی نے بین الاقوامی امور اور سفارت کاری کے تمام اصولوں کو غلط ثابت کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والا پاکستان کا دشمن ہے: احسن اقبال
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان مثالی اور منفرد نوعیت کے تعلقات قائم ہیں، آہنی بھائی جیسے تصورات اور الفاظ دیگر ممالک کے درمیان تعلقات میں نہیں ہیں مگر یہ تمام جملے پاک چین دوستی اور بھائی چارے کی گہرائی اور مضبوطی کی عکاسی کر رہے ہیں، تاریخی طور پر پاکستان اور چین اقتصادی تعلقات کے علاوہ سیاسی تعلقات، سلامتی اور اقتصادی تعاون سمیت متعدد شعبوں میں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے تاہم 2013 میں جب نواز شریف نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد چین کا دورہ کیا تو دونوں ممالک کے درمیان سی پیک پر کام شروع کرنے کیلئے 46 ارب ڈالر کے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
وفاقی وزیرنے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نتیجے میں پاکستان نے بجلی کی کمی پر قابو پالیا اور ملک کا مواصلاتی ڈھانچہ بہتر ہوا، سی پیک کا مقصد چین کے تجارتی مفادات کو آگے بڑھانا نہیں بلکہ پاکستان کی مدد کرنا تھا جو چین کا ایک قریبی سٹریٹجک پارٹنر ہے، اس منصوبہ کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانا اور معیشت کی زرعی ڈھانچے کو صنعتی ڈھانچے میں تبدیل کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت مختلف شعبوں سے اچھی خبریں آ رہی ہیں، چین کے تعاون سے گوادر بندرگاہ کے ایسٹ بے ایکسپریس وے نے جون سے کام شروع کر دیا ہے، جس سے بندرگاہ کے ذریعہ رابطے میں اضافہ ہوا ہے اور اسی کے ذریعے اب 2 لاکھ ٹن کھاد کی نقل و حمل ہو رہی ہے، کروٹ ہائیڈرو پاور نے جون میں بھی کمرشل آپریشن شروع کیا جس سے سستی اورماحول دوست بجلی فراہم ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ہر چیز برائے فروخت، صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ احسن اقبال
احسن اقبال نے کہا کہ اس منصوبہ سے سالانہ 3.5 ملین میٹرک ٹن کاربن کے اخراج میں کمی آئیگی، تھر میں ٹی ای ایل اور نووا پاور پلانٹس نے بھی مقامی کوئلے سے کام شروع کیا۔ شنگھائی الیکٹرک تھر کول بیسڈ پاور پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا گیا ہے، پاکستان چائنا ریڈ چلی کنٹریکٹ فارمنگ پراجیکٹ کے تحت صوبہ پنجاب اور سندھ میں 6 ماڈل فارمز فصل دے رہے ہیں، ان منصوبوں سے 700 ٹن خشک مرچ کی پیداوار کا تخمینہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال 2021 میں پاکستان کی زرعی مصنوعات کے فاضل تجارت میں 13 گنا اضافہ ہوا، اس سال فاضل زرعی تجارت ایک ارب ڈالر کی بلند ترین سطح سے تجاوز کرنے کی توقع ہے، چینی سفیرنے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کے تحت اب تک 192,000 لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا، 6000 میگاواٹ بجلی کی فراہمی ہوئی، 510 کلومیٹر ہائی ویز بنی جبکہ 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائن بنائی گئی ہے، جس نے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔