لاہور: (روزنامہ دنیا) بچوں کے لیے محفوظ ترین بستر کیا ہو سکتا ہے؟ بعض لوگ عام بستر کی چادر یا کوئی اور کپڑا لے کر اس کا جھولا بنا لیتے ہیں لیکن کپڑے کے جھولا نما یہ بستر کسی بھی صورت محفوظ نہیں ہیں کیونکہ بچے کے گر جانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈوری یا اس کے بغیر اسے جس طرح سے لٹکایا جاتا ہے وہ غیر محفوظ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بچے کے لیے اس کا خصوصی چھوٹا پلنگ ہونا چاہیے جو اطراف سے اس طرح محفوظ بنا دیا جاتا ہے کہ بچے کے گرنے کا خطرہ نہ رہے۔
بستر بناتے وقت یہ خیال ذہن میں رہنا چاہیے کہ اس پر کوئی ایسی چیز نہ پڑی ہو جس سے بچہ بے خیالی میں اپنی سانس میں رکاوٹ ڈال سکے۔ مومی لفافے (شاپر) بچے کی پہنچ سے خصوصی طور پر دور رکھنے چاہئیں کیونکہ انہیں بچہ کسی بھی وقت اپنے چہرے پر لپیٹ سکتا ہے جس سے دم گھٹ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے بستر پر تکیہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بچہ اسے بھی اپنے چہرے پر کھینچ سکتا ہے سو بچے کا بستر بناتے وقت خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہیے۔ کوئی ایسا کھلونا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے ڈوری یا ربن بندھی ہوئی ہو،کیونکہ بچہ اپنے گلے کے گرد اس کا گھیرا تنگ کر سکتا ہے۔
کھانے کے وقت بچے کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آپ کی غیر موجودگی میں کسی بھی وقت فیڈر بچے کی سانس کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بچے کی پہنچ میں کوئی ڈوری یا رسی بھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ بچے ہر چیز کو منہ میں ڈال کر سیکھنے کے عمل کی ابتدا کرتے ہیں۔ بٹن، سکے اور چھوٹے چھوٹے کھلونے کسی بھی وقت ان کی سانس کی نالی میں پھنس سکتے ہیں۔ سو ڈھیلے ڈھالے حصوں والی گڑیائیں جن کی مثلاً آنکھیں بچے نگل سکیں انہیں کھیلنے کے لیے نہیں دینی چاہئیں۔
اسی طرح مونگ پھلی یا اس قسم کی اور اشیا نہیں دینی چاہئیں کیونکہ وہ انہیں سانس کی نالی یا نتھنوں میں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچے کی سانس کی نالی میں کوئی شے اٹک جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ جب تک کہ پھنس جانے والی شے آپ کو نظر نہ آ رہی ہو اپنی انگلی سے اسے ڈھونڈھنے یا نکالنے کی کوشش میں وقت ضائع نہ کریں۔ ٹانگوں سے پکڑ کر بچے کو الٹا لٹکائیں اور کندھوں کے درمیان چھاتی پر اسے ہلکے ہلکے چپت ماریں۔ اگر پھنسی ہوئی چیز باہر نہ نکلے تو پھر دوبارہ ایسا کریں۔ اگر کافی کوشش کے باوجود بچے کی سانس بحال نہیں ہوتی اور چیز باہر نہیں نکلتی تو اس کے پیٹ پر زور دار جھٹکا دیں۔ یہ کوشش سانس کی نالی میں پھنسی ہوئی چیز کو باہر دھکیل دے گی۔
اگر بچے کا سانس گھٹ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ جس شے سے بچے کی سانس گھٹی ہوتی ہے فوراً اسے ہٹائیں اور اگر سانس رک چکی ہے تو اس کے منہ سے منہ جوڑ کر اسے مصنوعی سانس دیں۔ یہ سانس دینے کا ایک مخصوص طریقہ ہے جسے سیکھ لینا چاہیے۔
بچوں کے جلنے کا بھی امکان رہتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو بالکل علم نہیں ہوتا کہ گرم پانی کیتلی یا استری کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ سو بچے کسی بھی وقت اپنے آپ کو جلا سکتے ہیں اور کسی بھی وقت ایسا عمل جان بھی لے سکتا ہے۔ کیتلیاں اور فرائی پین جیسی چیزیں بچے کی پہنچ سے دور رکھیں اور ذہن میں رہے کہ ابالنے کے آدھ گھنٹے بعد تک بھی پانی بچے کا جسم جلا سکتا ہے۔ بجلی کی کیتلی کی تار ہو سکے تو انتہائی مختصر رکھیں اور ہمیشہ استعمال کے بعد لپیٹ دیں۔
بچے کو گود میں لے کر کوئی گرم چیز نہ پئیں اور کوئی گرم مشروب جیسے چائے اور کافی بچے کے سر کے اوپر لے کر نہ بیٹھیں۔ میز پوش بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بچہ اٹھنے کی کوشش میں یا یہ دیکھنے کے لیے کہ اوپر کیا رکھا ہے اسے کھینچ سکتا ہے سو اگر گرم پانی یا چائے کا کوئی برتن میز پر پڑا ہے تو وہ بآسانی اسے اپنے اوپر گرا سکتا ہے۔ اگر چولہے پر کوئی برتن پڑا ہے تو بچہ یہ دیکھنے کے تجسس میں کہ اس میں کیا ہے کسی بھی وقت اس کا ہینڈل کھینچ سکتا ہے۔ اس لیے اس کا ہینڈل ہمیشہ اندر کی طرف رکھیں تاکہ بچہ اس تک پہنچ نہ پائے۔
نہانے کے اوقات میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ بچہ گرم پانی میں ڈوب کر مر گیا ہو۔ اس لیے اس سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بچے کو نہانے کے ٹب میں کبھی اکیلا نہ چھوڑیں کیونکہ صرف گرم پانی سے جھلسنے کا ہی نہیں ڈوبنے کا بھی خطرہ ہر وقت رہتا ہے۔ یاد رہے کہ بچہ صرف دو انچ گہرے پانی میں بھی ڈوب سکتا ہے۔ ہمیشہ گرم پانی ڈالنے سے پہلے ٹب میں ٹھنڈا پانی ڈالیں کیونکہ جب آپ بچے کی طرف دھیان نہیں دے رہے وہ کسی بھی وقت اچانک اپنا پاؤں پانی میں رکھ سکتا ہے۔
بچے پر پانی ڈالنے سے پہلے درجہ حرارت کا اندازہ ضرور کر لیں۔ پانی انتہائی آرام دہ حد تک نیم گرم ہونا چاہیے اور پھر بچے کو پانی میں اکیلا نہ چھوڑیں۔ جلنے کی صورت میں فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کچھ منٹ کے لیے بچے کو ٹھنڈے پانی میں یا نلکے کے پانی کے نیچے رکھیں تاکہ اس کی جلد کا درجہ حرارت کم ہو سکے۔ پانی کے اندر ہی اس کے جلے ہوئے حصوں سے کپڑا علیحدہ کریں تاکہ وہ حصہ پانی کی زد میں آ سکے۔ اس طرح جلے ہوئے حصے کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے اور جسم کے اندرونی حصے کسی اور نقصان سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
تنگ پہناوے جیسے سکارف، بیلٹ یا کوئی زیور اتاریں اورجلے ہوئے حصے کو کسی صاف کپڑے مثلاً رومال یا سرہانے کے غلاف سے ڈھانپ دیں۔ اس طرح سوزش کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ مکھن جیسی کوئی شے جلے ہوئے حصے پر نہ لگائیں۔ کیونکہ ہسپتال میں کسی بھی علاج سے پہلے اسے ہٹانا انتہائی ضروری ہے۔ روئی یا اس قسم کی کوئی چیز استعمال نہ کریں ورنہ وہ رخم کے ساتھ چپک جائے گی اور اسے ہٹانا تکلیف کا سبب بنے گا۔ اگر چھالے بن جائیں تو انہیں پھوڑیں مت۔ چھالے ایک حفاظتی جھلی کی طرح ہوتے ہیں، ان میں سوراخ ہو جانے سے جراثیم کا راستہ کھل جاتا ہے اور سوزش ہو سکتی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر کیتھرآر لائن