بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین سے جنم لینے والے کورونا وائرس نے سب سے پہلے ووہان میں اپنے پنجے گاڑے تھے جس کے بعد یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا گیا اور اب تک اس مہلک وباء کے باعث تقریباً 45 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم اپنے ملک میں کورونا وائرس پر کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہونے کے بعد چین نے اس جنگ میں مغربی ممالک کی مدد کے لیے قدم بڑھایا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ چین یہ سب دنیا میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا اور یورپی ممالک کے نظامِ صحت پر کورونا وائرس کے بڑھتے بوجھ کو دیکھتے ہوئے چین نے لاکھوں کی تعداد میں فیس ماسک اور طبی عملہ وہاں بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے اس اقدام سے چین اس تاثر کو بھی مٹانا چاہتا ہے جس کے تحت ابتدا میں کہا جا رہا تھا کہ وہ کورونا وائرس کی وبا سے ٹھیک طرح سے نہیں نمٹا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ امداد ایک مہم ہے جو مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے سامنے چین کی طاقت کو نمایاں کرنے کا ایک موقع ہے۔
کورونا وائرس گزشتہ سال چین کے شہر ووہان کی جنگلی جانوروں کی منڈی سے پھیلا تھا۔ چینی حکومت کا کہنا تھا کہ حالات اب قابو میں ہیں اور مقامی طور پر وائرس کے نئے کیسز میں کمی آچکی ہے۔
اس کے برعکس یورپ اور امریکا اس وبا کا گڑھ بن چکے ہیں اور اب وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی غرض سے مغربی دنیا کا بیشتر حصہ لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔
ایسے حالات میں چین نے پاکستان سمیت متعدد ممالک کو فیس ماسک اور دیگر سامان اور عملہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ ان کی اس وائرس کو ختم کرنے میں مدد کی جاسکے۔
چین کی مدد حاصل کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ آسٹریا، بیلجیم، فرانس، ہنگری، اٹلی، نیدرلینڈز اور سپین شامل ہیں۔
کووڈ 19 کے گرد گردش کرنے والی نظریاتی جنگ چین اور مغرب کے درمیان حالیہ کشیدگی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
یورپین یونین انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی سٹڈیز کی ایلس ایکمن کا کہنا ہے کہ اپنے نظام کی برتری دکھانے کے لیے چینی حکومت کوئی بھی قومی اور بین الاقوامی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا ون ڈر لیین نے ابتدا میں چین کا مدد کے لیے شکریہ ادا کیا تھا تاہم یہ اب تلخی میں تبدیل ہوگیا ہے۔
یورپی یونین کمیشن کے خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یورپ بیانیوں کی عالمی جنگ میں اپنا مقام بنانے کی جدوجہد کے لیے تیار رہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں جغرافیائی سیاست کا انصر شامل ہے جو کہ سخاوت کی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔