فریقین میں اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن 8 جون تک نگران وزیر اعظم کا اعلان کریگا، حلقہ بندیوں بارے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی آیا تو الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے: رپورٹ
اسلام آباد: (الماس حیدر نقوی ، سید ظفر ہاشمی ) ملک میں آئند ہ عام انتخابات بر وقت ہونے کے امکانات روشن، غیر معمولی صورتحال کے باوجود آئندہ انتخابات وقت پر ہونگے، الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں 3 مئی تک مکمل کر لی جائیں گی، انتخابی فہرستوں کو 24 اپریل تک نمٹایا جائے گا، حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ میں غیر معمولی درخواست جانے کی صورت میں اگر حکم امتناعی آتے ہیں تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں وگرنہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہونگے۔ آئینی طور پر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کی صورت میں 3 جون پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے کی صورت میں 6 جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جانے سے 8 جون تک نگران وزیر اعظم کا اعلان سامنے آجائیگا۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان مئی کے آخری ہفتے جبکہ شیڈول کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔
روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن تمام تر اعتراضات اپنے مقررہ وقت میں نمٹاتے ہوئے 3 مئی تک حتمی فہرست مرتب کر دے گا جس کے بعد سپریم کورٹ ہی واحد فورم ہوگا جو حلقہ بندیوں پر مزید اعتراضات کی سماعت کریگا۔ اگر سپریم کورٹ میں غیر معمولی تعداد میں اعتراضات کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹانے میں تاخیر ہو تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، کیونکہ اگر زیادہ تعداد میں اعترضات پر سماعت جاری رہتی ہے تو الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسران کی تعیناتی اور پولنگ سکیمز کو حتمی شکل دینے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور تربیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن پہلے اپنی حکمت عملی مرتب کر چکا ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلیوں کی مدت 31 مئی جبکہ خیبر پختونخوا ،بلوچستان اورسندھ اسمبلیوں کی مدت 28 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔
وفاق اور پنجاب میں نگران حکومتیں آئینِ پاکستان کی روشنی میں آرٹیکل 224۔اے اور اسی آرٹیکل کی شق 1 اور 2 کے تحت کی جائے گی ، اس آرٹیکل کے تحت رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو اسمبلیوں کی رخصت کے بعد تین دن کے اندر نگران وزیر اعظم کا نام طے کرنا ہو گا، یعنی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے پاس 3 جون تک اتفاق رائے کی مہلت ہو گی۔ اگر فریقین اتفا ق رائے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو یہ ذمہ داری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو تفویض ہو جائے گی، یہ کمیٹی جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی سپیکر قومی اسمبلی تشکیل دیں گے جس کے لیے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف تجویز کریں گے کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چار چار ممبران شامل ہوں گے۔ کمیٹی کو قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے ایک ایک نام بھجوایا جائے گا جن میں سے کمیٹی کو کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہو گا۔ کمیٹی کا بھی تین دنوں کے اندر ان ناموں میں سے کسی ایک پر اتفا ق رائے ضروری ہوگا ۔ اتفا ق رائے نہ ہونے کی صورت میں 7 جون کو از خود نام الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جائینگے جسے الیکشن کمیشن کو دو دنوں میں فیصلہ کرنا ہوگا، یعنی الیکشن کمیشن نام منتقل ہونے کی صورت میں 8 جون تک حتمی طور پر نگران وزیر اعظم کے نام کا اعلان کر یگا۔
یہی طریقہ کار نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنا یا جائے گا۔ جہاں پہلی مشاورت کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے قائد اختلاف کی ہے، تاہم صوبائی سطح پر بننے والی کمیٹی اسی ترتیب سے چھ ارکان پر مشتمل ہو گی ، آرٹیکل 224 اے کی شق ایک اور دو کے تحت کمیٹی کو بھی نام موصول ہونے کے تین دن کے اندر نگران وزیر اعظم یا نگران وزیر اعلیٰ کے لیے کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہو گا۔ یعنی خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں وزرائے اعلی اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کی صور ت میں 31 مئی تک نگران وزرائے اعلی کا اعلان کر دیا جائے گا، اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کو بھجوا دیا جائے گا۔ تینوں صوبوں میں 5 جون کو نگران وزرا ئے اعلی کا اعلان کر دیا جائے گا۔