لاہور: (روزنامہ دنیا) چھوٹا بچہ اپنی دنیا کی گہرائیوں کو دو طرح سے سمجھتا ہے: ایک اس طرح کہ دنیا اس پر کیا اثر ڈالتی ہے اور دوسرے وہ دنیا میں کیا کیا کر سکتا ہے۔ ان دونوں باتوں کو وہ بول چال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بچہ اس وقت بولنا شروع کرتا ہے جب اس کے اعضا اور اعصابی نظام میں پختگی آ جائے اور اسے اپنے ماحول سے خاصی واقفیت ہو جائے۔ بچہ اپنی تکلیف اور ناپسندیدگی کا اظہار پہلے سیکھتا ہے اور خوشی اور اطمینان کا اظہار بعد میں۔ لیکن ایک سال کی عمر تک بچہ اپنے احساسات کا اظہار آواز اورافعال کے ذریعے کرتا ہے۔
پہلے سال کے اختتام تک وہ چھوٹے چھوٹے الفاظ بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اور یہیں سے اصل زبان کا آغاز ہوتا ہے۔ زبان کی ترقی کا انحصار بہت حد تک گھر کے لوگوں کے باہمی تعلقات پر ہے۔ الفاظ کا صحیح مفہوم ان کو بار بار بولنے سے سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ جب بچہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ چند مستقل قسم کی چیزوں اور مانوس انسانوں کے لیے ایک خاص مقام معین کر لیتا ہے۔
بول چال میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ چیزوں کی مقامی اور ضمنی اہمیت کو اچھی طرح سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ مستقبل کے لیے منصوبے بناتا ہے اور گزرے ہوئے حالات کو یاد رکھتا ہے۔ عمر کے تقریباً دو ڈھائی سال تک بچے کو الفاظ کے لغوی معنی نہیں آتے۔ الفاظ اس کے لیے چند ایسے اشارے ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ افعال اور احساسات کو پہچان سکے۔ جو لفظ وہ استعمال کرتا ہے وہ ان جذبات کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں جن کے سلسلے میں اس نے وہ الفاظ پہلی مرتبہ استعمال کیے یا سنے ہوں۔ الفاظ استعمال کرنے سے اسے وہی تجربات یاد آ جاتے ہیں جو ان الفاظ سے جڑے ہوتے ہیں اور چہرے پر وہی اثرات نمودار ہو جاتے ہیں۔
لفظ ’’بلی‘‘ کہتے وقت بچہ مختلف قسم کے مطالب بیان کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ’’مجھے بلی سے خوف آتا ہے‘‘ یا ’’ مجھے بلی پسند ہے‘‘ یا ’’ میں بلی کو بلانا چاہتا ہوں۔‘‘ کچھ عرصہ کے بعد اپنی ماں کی مدد سے وہ تصور اور خیالات کی دنیا کی حقیقت کو پہچاننے لگتا ہے۔ بہت سے الفاظ سیکھ لینے سے اس کے اور والدین کے درمیان محبت کا رشتہ زیادہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ جب وہ ’’امی‘‘ یا ’’ابا‘‘ کہتا ہے تو والدین پھولے نہیں سماتے اور ان کو دیکھ کر بچہ بھی خوش ہو جاتا ہے اور بار بار ان الفاظ کو دہراتا ہے۔ بلکہ دوسرے الفاظ کو سیکھ کر بار بار دہرانے لگتا ہے کیونکہ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس طرح نئے نئے الفاظ سیکھ کر وہ والدین پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
تحریر: صفیہ جمیل